پنجاب اول پنجاب آخر

غیر پنجابیوں کو پنجاب کا ہیرو کیسے بنایا گیا نظیر کہوٹ

سات ہزارسال قدیم دیس پنجاب،پنجابی تہذیب،پنجابی کلچر،پنجابی زبان ،پنجابی قوم کاوجود پاکستانی ریاست میں مجھے کہیں نظر نہیں آ رہا۔  پنجاب اورپنجابیوں پرمسلط کئے گئےظالم ،نسل پرست،بیرونی حملہ آوروں،لٹیروں،قبضہ گیروں، لشکریوں(منگولوں۔غوریوں،غزنویوں،احمد شاہیوں، ابدالیوں،افغانیوں،درانیوں)سےایک مختصرملاقات. دلی، ہندوستان,بیرونی حملہ آوروں کی ہزارسالہ غلامی نے پنجاب اور پنجابی قوم کو کیسے برباد کیا۔ پنجاب کی صدیوں پر محیط تاریخ مزاحمت کی مختصر ترین کہانی ! ساڑھے پانچ ہزار سال قدیم سلطنت سپت سندھو جس کا اجوکا وجود پنجاب ہے پر یہ الزام کہ ’’”پنجاب نے کبھی مزاحمت نہیں کی اور ہمیشہ حملہ آوروں کو خوش آمدید کہا”. تاریخ انسانی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔حقیت اس کے بالکل برعکس کچھ یوں ہے کہ پنجاب کی وہ تاریخ جو تقسیم پنجاب اور قیام پاکستان کے بعد پنجابیوں سے جبری پوشیدہ رکھی گئی اورجس کے پڑھنے پڑھانے پر ریاستی پابندی عائد ہے ہمیں بتاتی ہے کہ پنجاب دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جو صدیوں تک حالت جنگ میں رہا۔اورجہاں جنگ ہو گی وہاں مزاحمت ضرور ہو گی۔کہ مزاحمت انسانی فطرت میں شامل ہے۔جیینے اور زندہ رہنے کی خواہش کا نام ہی مزاحمت ہے۔پنجاب کی تاریخ مزاحمت بھی اُتنی ہی قدیم ہی جتنی کہ خود سپت سندھو کی تاریخ۔دوسری طرف پنجاب پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ سے لے کر آج تک پنجاب کی قومی تاریخ کو مسخ کرنے کامنظم اور مجرمانہ عمل بھی پنجاب پر تاریخ کے تشدد کا ہی تسلسل ہے۔ پانچ ہزار سال پہلے سرزمین پنجاب دنیا کی چند گنی چنی تہذیبوں میں سے ایک پرامن تہذیب کا مسکن تھا۔پنج ست دریاوں(پنجند،سپت سندھو) کا دیس ہمیشہ سے خوشحالی ,زرخیزی،,خیراورامن وآشتی کا گھر تھا.جہاں دنیا بھر کے بھوکے ننگے،مفلس اور بھکاری صدیوں تک پناہگیروں اورحملہ اوروں کے بھیس میں آکر پناہ لیتے رہے۔جن میں سے اکثر بالاآخر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ٹیکسلا اور ہڑپہ پنجابی تہذیب کا گہوارہ تھے۔دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا میں پنجابیوں نے قائم کی۔چانکیہ اسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا۔تب پنجند سپت (ست) ند تھا۔ڈاکٹر ڈی ٹیرہ کی رائے کے مطابق پنجاب کی وادی سواں کی تاریخ بابل،نینوا،وادی سندھ،مصر اور یونان کی تہذیبوں سے بھی ہزاروں سال قدیم ہے۔ ہندوستان کا عظیم بادشاہ اشوک اعظم( 232ء تا 273ء صدی قبل مسیح) جس نے اپنی سلطنت کی بنیاد پنجاب میں رکھی۔ کلنگاہ(اڑیسہ) میں ہندوستان بھر کی ڈیڑھ لاکھ افواج کو موت کے گھاٹ اتارنے والا اشوکا نےاس جنگ کے بعد بدھ مذہب اختیار کیا اور سرکاری سرپرستی میں بدھ مت کا پرچار کرکے اسے ایک عالمی مذہب بنا دیا ٹیکسلا یونیورسٹی کا فارغ التحصیل اور اسی یونیورسٹی میں پڑھانے والے ذہین و فطین،فلاسفر اور استاد کوتلیہ اچاریہ کا ہونہار اور ذہین شاگرد تھا۔ ۔ٹیکسلا اشوکا کا دارلحکومت تھا۔اشوکا کے دور میں ٹیکسلا اور سپت سندھو کی سرزمین علوم و فنون کا عالمی مرکز تھی ۔سپت سندھو کی دھرتی پر بہنے والے دو قدیم اور مونہہ زور دریاوں دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان کا علاقہ دوآبہ سندھ ساگر کے نام سے مشہور ہے۔یہاں گھنے جنگلات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔سکندر اعظم اور بابر نے انہی جنگلات میں ہاتھی اور گینڈے کے شکار کھیلے۔چینی سیاح ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں ٹیکسلا شہر کی عظمت و شوکت اور رونقوں کا ذکر کا ہے۔گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلا کی وجہ شہرت ایک علمی مرکز اور ٹیکسلا یونیورسٹی تھی۔سپت سندھو کے اس عظیم اور بے مثال شہر کی عظمتوں کا سورج نصف النہار پہ تھا جب اچانک اسے دشت قباچ سے نازل ہونیوالی بلاوں اور عذاب نے آ گھیرا۔ شمالی ترکمانستان سے آندھی اور طوفان کی طرح اٹھکر پنجاب پر چھا جانیوالے یلغار کرتے سفید ہنوں(460ء تا470ء) نے گوتم بدھ،،چندر گپت موریہ،اشوکا،کوتلیہ،سکندر اعظم،پورس اورہیون سانگ کے اسی محبوب شہر ٹیکسلا کو لوٹنے کے بعد شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔حملہ آوروں نے پیپل،برگد کے درختوں اور گھنے جنگلات میں گھرےاس دور کے دنیا کے جدید ترین شہر،یونیورسٹی،درسگاہوں،خانقاہوں اور سٹوپوں کو مسمار کیا شہرکو کھنڈر میں بدل دیا اور جو کچھ بچ گیا اسے جلا کر راکھ کر دیا۔ٹیکسلا کی فوج اور شہر کے تمام وسنیک حملہ آوروں سے لڑتے لڑتے اپنی جانیں ہار گئے۔یوں ٹیکسلا تاریخ کا حصہ بن گیا۔جس کے بعد پنجاب کا صدیوں پر محیط بیرونی حملہ آوروںاور کبھی نا ختم ہونیوالی غلامی کا تاریک شروع ہوا۔ٹیکسلا کے زوال کے ساتھ ہی پنجاب کی عظمت بھی رنجیت سنگھ کے ظہور تک تاریخ اور صدیوں کے اندھیروں میں گم ہو گئی۔اجوکا پنجاب ہزاروں سال پنجابی تہذیب وتمدن,امن وخوشحالی اور فن و ادب کا مرکز رہا اسی وجہا سے صدیوں تک استعماری طاقتوں,بیرونی حملہ آوروں، دہشتگردوں، لشکریوں اور لوٹ مار کا نشانہ بنتا رہا،ان کے ہاتھوں اجڑتا برباد اور لہولہان ہوتا رہا۔مگر زندہ رہنے کے لئے خود بھی ہربیرونی حملہ آور سے لڑتا رہا۔ یوں صدیوں سے پنجاب کا دوسرا نام ہی مزاحمت ہے۔