ساڑھے سات ہزارسال قدیم سلطنت سپت سندھو جس کا اجوکا وجود پنجاب ہے پریہ الزام کہ ’’”پنجاب نے کبھی مزاحمت نہیں کی اور ہمیشہ حملہ آوروں کو خوش آمدید کہا”. تاریخ انسانی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔حقیت اس کے بالکل برعکس کچھ یوں ہے کہ پنجاب کی وہ تاریخ جو تقسیم پنجاب اور قیام پاکستان کے بعد پنجابیوں سے جبری پوشیدہ رکھی گئی اورجس کے پڑھنے پڑھانے پر ریاستی پابندی عائد ہے ہمیں بتاتی ہے کہ پنجاب دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جو صدیوں تک حالت جنگ میں رہا۔اورجہاں جنگ ہو گی وہاں مزاحمت ضرور ہو گی۔کہ مزاحمت انسانی فطرت میں شامل ہے۔جیینے اور زندہ رہنے کی خواہش کا نام ہی مزاحمت ہے۔پنجاب کی تاریخ مزاحمت بھی اُتنی ہی قدیم ہی جتنی کہ خود سپت سندھو کی تاریخ۔دوسری طرف پنجاب پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ سے لے کر آج تک پنجاب کی قومی تاریخ کو مسخ کرنے کامنظم اور مجرمانہ عمل بھی پنجاب پر تاریخ کے تشدد کا ہی تسلسل ہے۔
ساڑھے سات ہزار سال پہلے سرزمین پنجاب دنیا کی چند گنی چنی تہذیبوں میں سے ایک پرامن تہذیب کا مسکن تھا۔پنج ست دریاوں(پنجند،سپت سندھو) کا دیس ہمیشہ سے خوشحالی ,زرخیزی،,خیراورامن وآشتی کا گھر تھا.جہاں دنیا بھر کے بھوکے ننگے،مفلس اور بھکاری صدیوں تک پناہگیروں اورحملہ اوروں کے بھیس میں آکر پناہ لیتے رہے۔جن میں سے اکثر بالاآخر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ٹیکسلا اور ہڑپہ پنجابی تہذیب کا گہوارہ تھے۔دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا میں پنجابیوں نے قائم کی۔چانکیہ اسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا۔تب پنجند سپت (ست) ند تھا۔ڈاکٹر ڈی ٹیرہ کی رائے کے مطابق پنجاب کی وادی سواں کی تاریخ بابل،نینوا،وادی سندھ،مصر اور یونان کی تہذیبوں سے بھی ہزاروں سال قدیم ہے۔
ہندوستان کا عظیم بادشاہ اشوک اعظم( 232ء تا 273ء صدی قبل مسیح) جس نے اپنی سلطنت کی بنیاد پنجاب میں رکھی۔ کلنگاہ(اڑیسہ) میں ہندوستان بھر کی ڈیڑھ لاکھ افواج کو موت کے گھاٹ اتارنے والا اشوکا نےاس جنگ کے بعد بدھ مذہب اختیار کیا اور سرکاری سرپرستی میں بدھ مت کا پرچار کرکے اسے ایک عالمی مذہب بنا دیا ٹیکسلا یونیورسٹی کا فارغ التحصیل اور اسی یونیورسٹی میں پڑھانے والے ذہین و فطین،فلاسفر اور استاد کوتلیہ اچاریہ کا ہونہار اور ذہین شاگرد تھا۔ ۔ٹیکسلا اشوکا کا دارلحکومت تھا۔اشوکا کے دور میں ٹیکسلا اور سپت سندھو کی سرزمین علوم و فنون کا عالمی مرکز تھی ۔سپت سندھو کی دھرتی پر بہنے والے دو قدیم اور مونہہ زور دریاوں دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان کا علاقہ دوآبہ سندھ ساگر کے نام سے مشہور ہے۔یہاں گھنے جنگلات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔سکندر اعظم اور بابر نے انہی جنگلات میں ہاتھی اور گینڈے کے شکار کھیلے۔چینی سیاح ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں ٹیکسلا شہر کی عظمت و شوکت اور رونقوں کا ذکر کا ہے۔گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلا کی وجہ شہرت ایک علمی مرکز اور ٹیکسلا یونیورسٹی تھی۔سپت سندھو کے اس عظیم اور بے مثال شہر کی عظمتوں کا سورج نصف النہار پہ تھا جب اچانک اسے دشت قباچ سے نازل ہونیوالی بلاوں اور عذاب نے آ گھیرا۔ شمالی ترکمانستان سے آندھی اور طوفان کی طرح اٹھکر پنجاب پر چھا جانیوالے یلغار کرتے سفید ہنوں(460ء تا470ء) نے گوتم بدھ،،چندر گپت موریہ،اشوکا،کوتلیہ،سکندر اعظم،پورس اورہیون سانگ کے اسی محبوب شہر ٹیکسلا کو لوٹنے کے بعد شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔حملہ آوروں نے پیپل،برگد کے درختوں اور گھنے جنگلات میں گھرےاس دور کے دنیا کے جدید ترین شہر،یونیورسٹی،درسگاہوں،خانقاہوں اور سٹوپوں کو مسمار کیا شہرکو کھنڈر میں بدل دیا اور جو کچھ بچ گیا اسے جلا کر راکھ کر دیا۔ٹیکسلا کی فوج اور شہر کے تمام وسنیک حملہ آوروں سے لڑتے لڑتے اپنی جانیں ہار گئے۔یوں ٹیکسلا تاریخ کا حصہ بن گیا۔جس کے بعد پنجاب کا صدیوں پر محیط بیرونی حملہ آوروںاور کبھی نا ختم ہونیوالی غلامی کا تاریک شروع ہوا۔ٹیکسلا کے زوال کے ساتھ ہی پنجاب کی عظمت بھی رنجیت سنگھ کے ظہور تک تاریخ اور صدیوں کے اندھیروں میں گم ہو گئی۔اجوکا پنجاب ہزاروں سال پنجابی تہذیب وتمدن,امن وخوشحالی اور فن و ادب کا مرکز رہا اسی وجہا سے صدیوں تک استعماری طاقتوں,بیرونی حملہ آوروں، دہشتگردوں، لشکریوں اور لوٹ مار کا نشانہ بنتا رہا،ان کے ہاتھوں اجڑتا برباد اور لہولہان ہوتا رہا۔مگر زندہ رہنے کے لئے خود بھی ہربیرونی حملہ آور سے لڑتا رہا۔ یوں صدیوں سے پنجاب کا دوسرا نام ہی مزاحمت ہے۔
پنجاب کی گذشتہ ساڑھے سات ہزار کی تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب نے آریاؤں سے لے کر انگریزوں کی آمد تک تمام بیرونی حملوں آور کے خلاف خونی مزاحمت کی۔ایک سے بڑھ کر ایک مزاحمت کی بڑی جنگ لڑی۔پنجابیوں نے کبھی حملہ آوروں کو خوش آمدید نہیں کہا۔ سینٹرل ایشا سے آنیوالے آریاوں کو پانچ سو سال لگے سپت سندھو کے واسی پنجابیوں کو زیر کرنے میں. آریاؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے دراوڑ باشندے (جن کی جنگوں کا تذکرہ ویدوں میں ملتا ہے) اس دھرتی کے اولین ہیرو ہیں.سکندر سے پہلے پنجابیوں نے قرآن پاک میں مذکورہ ایرانی سلطنت کے بانی ذوالقرنین، جسے مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق ’’سائرس دی گریٹ‘‘ کہا جاتا ہے، کوبھی شکست دی تھی۔.سکندر اعظم کی مزاحمت پورس نے کی جہلم کے کنارے سکندر اعظم اورپورس کے درمیان ہونیوالی جنگ میں پورس کو شکست ہوئی مگر پنجابی سورماوں نے جنگ ہارتے ہارتے بھی دوران جنگ یونانی فوج کوکاری زخم لگاتے ہوئے خون میں نہلا کر تباہی کے کنارے پہنچا دیا۔سانگلہ پر سکندر کے حملے کی مزاحمت کرتے ہوٗے تیس ہزار پنجابی سورمے قتل ہوئے اور ستر ہزار پنجابی سپاہیوں کو قیدی بنا لیاگیا۔سانگلہ شہر کو سکندر نے مسمار کردیا.پنجاب میں جگہ جگہ سکندر کے حملوں کی مزاحمت کی گئی۔ پنجاب کی سرزمین پر پنجابیوں اور یونانیوں کے درمیان ہونیوالی ان جنگوں میں ہونیوالےنقصانات اور شدید مزاحمت کے بعد یونانی لشکر نے پنجاب میں مزید پیش قدمی سے انکار کرکے اور جمنا پار واقع پڑوسی دیس ہندوستان پر حملے کا ارادہ ترک کرکے واپسی کی راہ لی۔پنجاب کی جنگوں میں لگنے والے زخم ہی بالاآخر سکندر کی موت کا سبب بنے۔
پہلی بار تو شیخا کھوکھر نے تیمور کا ہاتھ بڑھا کر شہر لاہور اور اپنی حاکمیت کو تباہی سے بچایا ۔مگر تیمور کے جانے کے بعد اس نے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ شیخا کھوکھر نے 1393 میں لاہور پر قبضہ کیا تھا۔تیمور کوشیخا کھوکھر کے مورچہ بند ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے شہزادہ پیر محمد جہانگیر،شہزادہ رستم،امیر سلیمان اور امیر جہاں کی نگرانی میں ایک مختصر فوجی مہم بھیجی جس نے آکر لاہور پر حملہ کردیا۔انہوں نے لاہور کو لوٹا اور مزاحمت کرنیوالی مقامی فوج اور آبادی کا قتل عام کیا۔شیخا کھوکھر کو گرفتار کرکے رنجیروں میں جکڑ کر امیر تیمور کے سامنے پیش کیا گیا۔تیمور کے حکم پر March,1399۔ 25 کو شیخا کھوکھر کا سر قلم کردیا گیا۔ اور اس کے بیٹے جسرتھ کھوکھر کو گرفتار کرکے زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ساتھ سمرقند لے گیا اور وہاں قید کر دیا۔امیر تیمور لنگ(لنگڑَا) جس نے ایک ترک بادشاہ کی ملکہ کو اپنے دربار میں ننگا نچوایا اسی تیمور کو پنجاب میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا.
.پنجاب کا بادشاہ جے پال کون تھا اس نے لہور کے قلعے کے باہر اپنی چتا کو آگ کس خوشی میں لگائی تھی. گکھڑوں نے سلطان محمود غزنوی کی شدید مزاحمت کی۔جب سلطان محمود غزنوی جے پال پر حملہ آور ہوا تو تیس ہزار گکھڑوں نے غزنی سے آنیوالے بھیڑیوں کے اس لشکر پراس شدت سے حملہ کیا کہ سلطان محمود غزنوی کو پسپا ہونا پڑا. محمود غزنوی نے سترہ حملے پنجاب پر پہلے اور ہندوستان پر بعد میں کئے۔کہ ہر نئے حملے پر پہلے پنجاب مزاحمت کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا۔پاکستان کے قومی ہیرو شہاب الدین غوری المعروف غوری مزائل کو دھمیال (جہلم)کے قریب کھوکھروں نے اس کے خیمے میں گھس کر اس کے لشکر کی موجودگی میں قتل کیا۔ گرونانک 1521ء میں دوسری بار ایمن آباد میں قیام پذیر تھے کہ ظہیرالدین بابر نے اپنی فوج کے ساتھ ایمن آباد پر حملہ کیا. حملہ آور مغل فوج نے مقابل لشکر کو شکست دی تو گرورو نانک سمیت قصبے کے سبھی زندہ بچ جانےوالے لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ گرونانک کو چکی پر آٹا پیسنے پر لگا دیا گیا.نانک نے پنجابیوں سے کہاـ “ڈر کو پھینک دو،یہ تمہارا نہیں ہے” جب بابر نے پنجاب پر حملہ کیا تو گرونانک نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی:
پاپ کی جنج لے کے قابلو دھایا جوری منگے دن وے لالو
کُھون کے سوہلے گاویا نانک رت کا کنگُو پائے وے لالو
نسل پرست،انتہائی متعصب پٹھان بادشاہ شیرشاہ سوری جو کہتا تھا کہ میرا ایک ہی خواب ہے کہ “پشتونوں کو کابل و قندھار سے لا کر پشاور سے کلکتا تک جرنیلی سڑک کے دونوں اطراف آباد کروں۔”اسی شیر شاہ نے رہتاس کا قلعہ کیا خٹک ڈانس کروانے کے لئے تعمیر کروایا تھا. گکھڑوں نے قلعہ روہتاس کی تعمیر کی شدید مزاحمت کی۔ اور اپنے علاقے سے ایک پتھر بھی اٹھانے نہ دیا- راولپنڈی سے مشرق کی طرف جرنیلی سڑک پرسترہ کلومیٹر کے فاصلہ پرسولہویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا گیاایک تاریخی ’قلعہ روات‘‘1546ء میں گھکھڑوں کے سربراہ سلطان سارنگ خان اور شیر شاہ سوری کے درمیان اس مقام پر لڑی گئ ایک خوفناک جنگ کی یاد دلاتا ہے .یہ پنجابی بادشاہ سارنگ پنجاب پر پٹھانوں کے غلبہ اور شیر ساہ سوری کی حکومت سے شدید نفرت کرتا تھا۔ یہ شیردل پنجابی حاکم اور اس کے سولہ بیٹے شیر شاہ سوری اور اس کے پٹھان لشکریوں سے جنگ کرتے شہید ہوئے ۔
نام نہاد مغل اعظم کے عہد میں ساندل بار کے سردار فرید نے جب ہندوستانی ریاست کو جوری یعنی ٹیکس دینے سے انکار کردیا تو شہنشاہ اکبر کے حکم پر فرید کو قتل کرکے اس کی کھال میں بھوسہ بھروا کر اسے چوک میں درس عبرت کے لئے لٹکا دیا گیا۔پنجابی کسانوں میں بغاوت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ اسی فرید کے بیٹے دلا بھٹی نےشہنشاہ اکبر کے دور میں مغلوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا .دلا بھٹی نےبغاوت کی قیادت کرتے ہوئے پنجاب پر مغل راج کے گماشتوں کے مظالم اور غنڈہ گردی کے خلاف چوہدا سال تک گوریلا جنگ لڑی۔ آخر کار دلا بھٹی کو گرفتار کر لیا گیا اور 26 مارچ 1599ء میں جب وہ تیس سال کا تھا اسے لاہور کی گھوڑا منڈی میں شاہ حسین اور ہزاروں لہوریوں کی موجودگی میں پھانسی دی گئی۔ ہندوستان،دلی اور مغل شاہی سے پنجاب اور پنجابیوں کی بغاوت اور نفرت کے اظہار کی گونج پورے ہندوستان میں دلا بھٹی کی آواز میں یوں سنائی دی:
بھناں دلی دے کنگرے دیاں شکر وانگوں بھوربھاجڑ پا دیاں لہور
نادر شاہ درانی نے 18نومبر1738 ء کو دریائے سندھ عبور کیا دلی پر حملے سے پہلے نادر شاہ نے پنجاب پر حملے کردیا۔۔صوبہ پنجاب کی سپاہ نے وزیر آباد میں مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔پھر نادر شاہ لاہور پہنچا۔ شالا مار باغ میں قیام کیا۔ذ کریا خان بیس لاکھ روپیہ اور چند ہاتھی وصول کرکے نادر شاہ لاہور سے دہلی روانہ ہوا۔ نادر شاہ نے دہلی فتح کیا شہر میں خون کی ندیاں بہا دیں ‘ تقریباً 20 ہزار افراد مارے دس دس سال کی بچیاں ’’ریپ‘‘ ہوئیں ۔ نادر شاہ واپس جاتے جاتےدلی سے لوٹی ہوئی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیاوہ پنجاب کے جس شہر سے گذرا آگ لگاتا اورقتل عام کرتا گذرا۔ اپنے پیچھے اس شہر کی ہر گلی میں بے سر ،بےگوروکفن لاشیں چھوڑ گیا۔
ایرانی لٹیرے نادرشاہ کے کردوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد اس کا خزانہ لوٹ کر فرار ہونیوالا کن کٹا احمد شاہ احمد ابدالی 1747ء میں قندھار میں تخت نشین ہوا ۔احمد شاہ بھی نادر شاہ،محمود غزنوی اور تیمور لنگڑے کی طرح ایک لٹیرا اور جلاد تھا اس نے پنجاب پر نو حملے کئے۔پشتونوں کے اس کن کٹے ہیرو احمد شاہ ابدالی نے ہزاروں،لاکھوں بے گناہ پنجابیوں کے خون اور پنجاب اور ہندوستان پر حملوں کے ذریعے لوٹے ہوئے مال و دولت کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار ایک پشتون ریاست افغانستان کی بنیاد رکھی۔بھوکے ننگے پشتون بادشاہ احمد شاہ ابدالی اور اور چیتھڑوں میں ملبوس اس کے وحشی لشکریوں نے پنجاب میں یونانی، منگول، ہن، ایرانی، ترک ،پشتون اور دیگر بیرونی حملہ آوروں کی لوٹ مار کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئے۔اس کی اندھا دھند لوٹ مار دیکھ کر پنجاب کی گلی گلی سے یہ آواز اٹھی :
کھاہدا پیتا لاہے دا باقی احمد شاہے دا
ہوس زر میں مبتلا دولت کے پچاری محمود غزنوی سمیت تمام مسلمان حملہ آوروں کا پنجاب اور اس کے پڑوسی دیس ہندوستان پر حملوں کا مقصد اسلام کی تبلیغ نہیں بلکہ صرف اور صرف لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے ذریعے دولت اور غلاموں کا حصول تھا۔اپنی خود نوشت تزک تیموری میں تیموراعتراف کرتا ہے کہ ہندوستان اور پنجاب پر حملہ سے پہلے اس نے وہاں کی مالی صورتحال کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ تاہم اس نے اپنے حملے کو پنجاب اور جمنا پار واقع اگلے ملک ہندوستان کے کفار پر غلبہ کوجہاد کا نام دیا۔کابل کےہوس زر میں مبتلا مفلس اور بھوکے حاکموں کے پنجاب اور ہندوستان پر حملے آخری مغل عہد تک جاری رہے.جنہیں بالاآخر رنجیت سنگھ نے روک کر ان پشتون حملہ آور لشکروں کو پنجاب سے ہمیشہ کے لئے مار بھگایا۔
ہندوستان کی سات ہزار سال کی تاریخ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ جیسی انتظامی صلاحیتوں ،دوراندیشی، اور روشن خیالی کی خصوصیات کا حامل کوئی مقامی حکمران نہیں گذرا۔رنجیت سنگھ انتہائی ذہین،زیرک،دوراندیش، انسان دوست نڈر، بہادر جنگجو اور اعلیٰ انتظامی وجنگی صلاحیتوں کا مالک حکمران تھا۔رنجیت سنگھ نے پنجاب کودلی، ہندوستان اوربیرونی حملہ آوروں کی ایک ہزار سالہ غلامی سے نجات دلا کر ایک آزاد اور خودمختار پنجابی ریاست قائم کی۔پنجاب کے اس بہادر سپوت کو کبھی میدانِ جنگ میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔مہاراجہ بیرونی حملہ آوروں کی مکاریوں کو سمجھتا تھا چنانچہ انگریزوں،ولندیزیوں،فرانسیسیوں ،پشتونوں اور ایرانیوں میں سے اسکی زندگی میں کسی کو بھی پنجابی سلطنت کے قریب پھٹنکے کی جرائت نا ہوئی۔پنجاب کی صدیوں کی تاریخ میں رنجیت سنگھ کی فوج پہلی باقاعدہ خالص پنجابی فوج تھی جو دنیا کی جدید ترین اور سلطنت برطانیہ اور نپولین کی فرانسیسی فوج کی ٹکر کی فوج تھی۔ساتھ ہی ہندووں،سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل یہ پنجاب کی پہلی اور آخری قومی فوج تھی۔جس کی ذمہ داری سلطنت پنجاب کی سالمیت اور سرحدوں کی حفاظت تھی اس فوج کا سپہ سالار رنجیت سنگھ تھا جس کی سپہ سالاری میں پنجابی فوج کو کبھی کسی جنگ میں شکست نا ہوئی۔
رنجیت سنگھ روشن خیال اور معاملہ فہم انسان تھا وہ ہندووں،مسلمانوں اور سکھوں سے برابری کا سلوک کرتا۔جنہیں ساتھ ملا کر اس نے سکھ ریاست کی بجائے پنجابیوں کی متحدہ ،مشترکہ آزاد اور خودمختار ایک مثالی قومی سیکولر ریاست عملا قائم کر دکھائی۔انگریز رنجیت سنگھ کی عسکری قوت، جنگی صلاحیتوں اور ناقابل شکست مزاحمتی فطرت سے خوف کھائے1801 سے 1839کے درمیان چالیس سال تک ستلج پار دبک کر بیٹھے اس کی موت کا انتظار کرتے رہے۔اگر رنجیت سنگھ کے تخت کے وارث آزاد, خودمختار پنجابی قومی ریاست کا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے تو آج ہندوستان اپنی اصلی سرحد یعنی جمنا کے اس پار ہوتا۔پنجابی ریاست کی آزادی اور خودمختاری برقرار رکھنے کے لئے 1846ء سے 1849ء کے درمیان انگریزوں اور پنجابیوں کے درمیان ہونے والی 3 بڑی جنگیں کیا مریخ پر لڑی گئیں۔چیلیاں والا کا میدان جنگ جنرل شیر سنگھ نے سجایا دو ہزار انگریز افسر پنجابیوں نے قتل کئے تو پورے انگلستان میں صف ماتم بچھ گئی۔۔چیلیاں والا کا گورا قبرستان گواہ ہے.کیا ہندوستان کا کوئی اور شہر یا قصبہ بھی پنجاب کے قصبے چیلیاں والا کی طرح انگریز فوجی افسروں کا سب سے بڑا قبرستان بنا؟
1857 کی جنگ آزدی کا,پنجابی ہیرو اور پنجابی مزاحمت کا استعارہ ,نیلی بارکا رائے احمد خان کھرل نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو کرائے کے سپاہی،گھوڑے اور مالیہ دینے سے انکار کرکے فرنگی راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ رائے احمد نےتین ماہ تک پچھتر فیصد پنجاب کو انگریزی قبضے سے آزاد کرواکراپنی عملداری قائم کئے رکھی۔ رائے احمد کھرل شہید نے آخری سانس تک انگریزی سامراج کے آگے ہتھیار نا ڈالے۔یہ21 دسمبر1857ء دس محرم کا مقدس دن تھا جب پنجاب کی آزادی کے لئے لڑتے ہوئے بحالت سجدہ تحریک آزادی کے اس عظیم مجاہد نے شہادت پائی۔.مقامی لوگوں کوعبرت دلانے اور تحریک مزاحمت کو کچلنے غرض سےرائے احمد کھرل کا سرکاٹ کرگوگیرہ جیل کے بڑے دروازے پر لٹکا دیا گیا۔کٹا ہوا سرتین ماہ تک جیل کے دروازے پر لٹکا رہا۔رنجیت سنگھ رائے احمد خان کھرل کو اپنا بھائی کہتا تھا۔1857 میں ہندوستان کے طول و عرض میں فرنگی راج کے خلاف بےچینی پیدا ہونی شروع ہوئی جس کے نتیجے میں میرٹھ اور دلی میں بغاوت پھوٹ پڑی۔لارڈ برکلے نے علاقے کے سرداررائے احمد خان کو بلا کر فوج کے لئے سپاہی اور جنگ کے کے لئے گھوڑے مانگے تو رائے صاحب نے جواب دیا
“اساں بھوئیں،رناں تے گھوڑیاں ونڈ کے کدی نا دتیاں”
رائے احمد شہید کی زبان سے بے ساختہ ادا ہونیوالے یہ الفاظ تاریخ مزاحمت کی پیشانی کا جھومر ہیں۔باقی سب تاریخ ہے.پاکستانی پنجاب میں پڑھائی جانیوالی تاریخ پنجاب سے اس عظیم پنجابی ہیروکا ذکر غائب ہے.بھیرووال کے معاہدے سے لے کر لاہور کے شاہی قلعے پر یونین جیک لہرانے تک انگریزوں کو پنجاب بھر میں ایسی خوفناک مزاحمت اور خونی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا تجربہ انہیں پورے ہندوستان پر قبضہ کے دوران کہیں نہیں ہوا تھا۔
انگریز حکومت نے باری دو آب ایکٹ میں ترمیم کرکے جب پنجاب میں آبیانہ بڑھا دیا اور زمین کی فروخت اور وراثت کے قانون بدلے توپنجاب میں اشتعال پھیل گیا22 مارچ 1907 کو لائلپور میں ایک جلسے میں انقلابی شاعر بانکے دیال نے اک پرجوش نظم پڑھی
پگڑی سنبھال جٹا، پگڑی سنبھال اوئے،
فصلاں نوں کھا گئے کیڑے، تن تے نہیں تیرے لیڑے
بھکھاں نے خون نچوڑے، روندے نے بال اوئے،
بن دے نے تیرے لیڈر، راجے تے خان بہادر
تینوں تے کھاون خاتر، وچھدے نے جال اوئے
پگڑی سنبھال او جٹاپگڑی سنبھال اوئے
پنجابی کسانوں کی تحریک کا نام ہی اس نظم کی مناسبت سے پگڑی سنبھال جٹا پڑ گیا۔پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایبٹ سن نے چھ مئی 1907 میں وائسرائے ہند لارڈ منٹو کو ایک رپورٹ بھیجی جس میں لکھا گیا کہ پنجاب میں کھلم کھلا بغاوت کی باتیں ہو رہی ہیں.پنجابی کسانوں کی مزاحمتی تحریک “پگڑی سنبھال جٹا” کیا لکھنو یا قندھار میں منظم ہوکر پورے پنجاب میں پھیلی تھی?
جلیانوالہ باغ میں شہید ہونیوالے پنجابی کیا وہاں مونگ پھلیاں کھانے گئےتھے۔سانحہ جلیانوالہ باغ تاریخ پنجاب،تاریخ انسانی اور آزادی کی تحریکوں کا ایک انتہائی المناک واقعہ ہے.1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں بیساکھی کے تہوار پر بیس ہزار کے قریب پنجابی ہندو،سکھ اورمسلمان جمع ہوئے۔ بریگیڈئیرجنرل (کرنل) رگنلڈ ایڈورڈ ہیری ڈائیرکوپنجابی عوام کی ایک بڑی تعداد کو دیکھ کر مزاحمتی تحریک اٹھنے کا خوف پیدا ہوا۔ کرنل ڈائر نے اپنے ساتھ لائے رائل برٹش انڈین آرمی کے دستے کو مجمع پرفائرنگ کا حکم دیا۔جس کے نتیجے میں ایک ہزارسے زیادہ افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہو گئے۔ کرنل ڈائر 1927 میں فالج کا شکارہوکر مرا، مگر اس جرم کا اصل ذمے دار پنجاب کا جلاد,مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروگورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل مائیکل او ڈائر جواس واقعے کے بعد گوجرانوالہ میں اسی سانحے پہ احتجاج کرنے والے عام لوگوں پہ ائیرفورس کے ذریعے بمباری کروا کے انھیں قتل کروانے کے جرم کا بھی ذمے دارتھا المناک انجام سے نہ بچ سکا .13 اپریل 1940 کو سانحہ جلیانوالہ کے اکیس سال بعد کینگسٹن ہال لندن میں ایک تقریب میں سردارادھم سنگھ نےمائیکل او ڈوائیر کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ادھم سنگھ امرتسر والے واقعے کا زخمی اور عینی شاہد تھا۔کیا فرنگی راج کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرنے پر ہندوستان کے کسی اور شہر پر بھی رائل برٹش انڈین ائیر فورس نے بمباری کی یا پھر صرف پنجاب کے ایک شہر کے نہتے لوگوں پر ہی بم برسائے؟کیا کبھی کسی ہندوستانی نے بھی کسی فرنگی حاکم کو انگلستان میں گھس کرمارا ؟
انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر شاہ برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے بھگت سنگھ کا جنم مورخہ ۲۸ ستمبر ۱۹۰۷ کو گاؤں بنگا، چک نمبر ۱۰۵، ضلع لائیلپور موجودہ پاکستان میں ہوا۔بھگت سنگھ کا تعلق انقلابی گھرانے سے تھا، جس میں غدر پارٹی کی روایت بھی موجود تھی۔بھگت سنگھ کے لگائے انقلاب زندہ باد کے نعرے سے سارا برصغیر گونج اٹھا۔ 7 مئی 1929 کوبرطانوی اہلکار کے قتل کیس میں بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھیوںکو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا۔ قتل کیس میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئ۔بھگت سنگھ انگریز سامراج کے مظالم کے خلاف سر سے کفن باندھ کر میدان میں اترا۔ 23 مارچ 1931 کے دن صرف 23 سال کی عمر میں بھگت سنگھ کو اس کے ساتھیوں کے ہمراہ لاہور میں شادمان چوک کے مقام پر پھانسی دے دی گئی۔ بھگت سنگھ تیزی کے ساتھ ہندوستان بھر کے عوام میں مقبول ہو رہا تھا۔اس کی مقبولیت کےسائے میں گاندھی کی شخصیت دھندلانے لگی۔جو انگریز ی راج ہی کو نہیں گاندھی،نہرو،پٹیل اور کانگریس کو بھی دہشت ذدہ کر رہی تھی۔حالات کو قابو سے باہر نکلتے دیکھ کر انگریزی سرکار نے بھگت سنگھ سمیت اسکے تین ساتھیوں کو پھانسی دے کر ہندوستان میں تحریک آزادی کو کچلنے کی کوشش کی مگر اس کا نتیجہ بالاآخر ہندوستان کی آزادی اور قیام پاکستان کی صورت میں نکلا۔ بھگت سنگھ تحریک آزادی کا ایک لافانی مزاحمتی کردار بن کر تاریخ انسانی میں ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا۔جس دن بھگت سنگھ کی پھانسی کی خبر لگی، اس دن پہلی بار ہندوستان میں گاندھی مردہ باد کا نعرہ لگا۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ گاندھی کی سیاست کے لئے خطرہ بن جانیوالے نوجوان بھگت سنگھ کی پھانسی میں گاندھی،نہرو،پٹیل،کانگریس،انگریز سرکار سبھی کی مرضی شامل تھی سوائے قائداعظم کے جنہوں نے بھگت سنگھ کی پھانسی کی ڈٹ کر مخالفت کی۔
لاہور میں جب بھی شادمان چوک کا نام بدل کر تحریک آزادی کے نوجوان پنجابی شہید بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، توپنجابی اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود خطرے میں گھر جاتا ہے بھگت سنگھ تحریک آزادی کا پاکستانی ہیرو تھا۔اس کی قربانی کی وجہ سے تحریک آزادی کی رفتار میں تیزی آئی۔قیام پاکستان کی بنیادوں میں بھگت سنگھ کا خون بھی شامل تھا۔قائداعظم اس کی زندگی بچانے کے لئے کوششیں کرنے والے واحد ہندوستانی سیاستدان تھے۔بھگت سنگھ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مزاحمت کی لازاوال پنجابی علامت تھا۔
پنجاب کو بیرونی حملہ آوروں اوردلی نے ہمیشہ برباد کیا،لوٹا,اجاڑا،اس کا خون پیا۔ ان بیرونی حملہ آوروں نےپنجاب کے تقریبن تمام شہرصدیوں تک بار بار لوٹے،اجاڑے،برباد،مسمار اور جلا کر راکھ کئے.اس لئے کہ آگے سے مقامی لوگ مزاحمت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔لہور کو تیمورلنگڑے،محمود غزنوی،بابر،نادر شاہ سب نے ہی لوٹا اور جلا کر راکھ کیا۔ حملہ آورلشکر پنجاب کے جس شہر پر حملہ کرتے یا جس دریا کے پار اترتے وہاں پہلے سے موجود ہتھیار بند پنجابی جتھے یا فوج اپنے استقبال کے لئے تیار ملتی۔ پنجابیوں نے سکندر اعظم سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی تک ہر بیرونی حملہ آور کی شدید مزاحمت کی.کیا مزاحمت نا کرنیوالوں اور ہتھیار ڈالنے والے شہروں اورآبادیوں کو بھی کوئی مسمار اور جلا کر راکھ کرتا ہے۔صدِیوں پرانا بھنگڑا پنجابیوں کے جنگ پر روانگی کے وقت ڈھول تھاپ پر ہونیوالا جنگی ناچ تھا۔جس میں ہندوستانی ٹھمکے نہیں لگاِئے جاتے،لڑائی،مزاحمت کے لئے خون گرمایا جاتا ہے۔ڈھول کی تھاپ پر طوفانی رفتار سےرقص کرتے ہوئے ہتھیار بند پنجابی سورمے میدان جنگ کو روانہ ہوتے تھے۔
پنجاب کی سات ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ پنجابیوں نے کبھی کسی کے خلاف جارحیت نہیں کی۔ہاں مگرپنجاب کی سر زمین سے گذشتہ پانج ہزار سال میں کوئی ایسا لشکر نہیں گزرا جس سےجنگ کے لئے پنجابی اٹھ نا کھڑے ہوئے ہوں۔گھڑ سوار آریائی درندے، ہم جنس پرست سکندر اعظم،آتش پرست ایرانی درانداز،تیمور لنگڑ ا سمرقندیا،غزنی کا ڈاکو محمود، ایرانی درندہ نادر شاہ،کن کٹا پشتون لٹیرا احمد شاہ ابدالی قندھاریا،بربریت کی علامت بھوکے منگولوں کے طوفانی لشکر،مغل دھاڑوی، انگریزی سامراج نہتے،پرامن پنجابی صدیوں تک کس کس بیرونی حملہ آور, لشکر اور لشکری کے خلاف نہیں لڑے۔نڈر پنجابی مائیں کیا عرب اور ترک مائون سے حوصلوں،جنگی جذبوں میں کم تھیں۔کیا یہ فریاد کسی عربی یا ترک ماں نے رب سے کی تھی کہ:
“جے میں جاندی جگے نے مر جانا، اک دی تھاں میں دو جمدی”
بلھے شاہ نے حملہ آوروں کے ہاتھوں لہولہان پنجاب کی بربادی کا حال بیان کیا تھا کہ:” در کھلا حشر عذاب دا برا حال ہویا پنجاب دا”
پنجاب پر دشمن کا غلبہ ہوا تو وارث شاہ کا دل خون رویا کہ “حکم ہور دا ہور اج ہو گیا اج ملی پنجاب قندھاریاں نوں”
پنجاب کی تاریخ مسخ کرنے کے لئے کرائے بھاڑے کے تاریخ دان(جج لطیف، کنہیا لال) لائے گئے.جسکے نتیجے میں پنجاب کے لئے کلنک کا ٹیکا بن جانیوالے پروفیسرفتح محمد ملک جیسے پنجاب فروش پنجاب میں پیدا ہوئے جو کہتے ہیں کہ ’’پنجاب کی مادری زبان اردو ہے”۔پنجاب کے کچھ جاہل ،اردو میڈیم اور گنگا جمنی اور غلامانہ ذہنیت کے مالک پنجابی دانشوروں،ادیبوں اور محقیقین نے تو اس وقت حد ہی کردی جب انہوں نے ریاستی ہلاشیری سے پنجابیوں کا اپنی دھرتی اور مڈھ قدیم سے تعلق توڑنے کی سازش کرتے ہوئے انہیں عرب النسل قرار دینے کی شرمناک مہم شروع کردی ۔یہ پنجاب کے کے وجود کے ازلی دشمن گنگا جمنی ذہنیت کے حامل پنجابی اور غیر پنجابی تاریخ دان , دانشور ہی ہیں جنہوں نے پنجاب کی بیٹیوں کی عصمت دری کرنے ،پنجاب کو لوٹنے ، تباہ و برباد اور لہو لہان کرنے،پنجاب اور پنجابیوں کو ہزار سال تک غلام بنا کر رکھنے والے لشکریوں ،بیرونی حملہ آوروں اور لٹیروں کو پنجاب کا ہیرو قرار دے کر پنجاب کی صدیوں پر پھیلی شجاعت اور مزاحمت کی روائت کو گالی دی۔ پ اسلامی تاریخ کی آڑ میں پنجاب کو ختم کرنے کی غرض سے اس کے مڈھ قدیم اورقومی شناخت کی جڑیں کاٹ کر اس کے تاریخی وجود سے انکار کر دیا ۔دیبی پرشاد، گنیش داس، برائن ہیوگل، کنگھم، الیگزینڈر گارڈنر، اسٹین بیک، فقیر وحید الدین، خشونت سنگھ اور کرنل (ر) معین باری کی تحریر کردہ تاریخ پنجاب کی کتابیں پنجاب کے نصاب میں کیوں شامل نہیں؟ پنجاب کے نصاب میں پنجاب کی پانج ہزار سالہ تاریخ،مغلوں اور مسلمان حملہ آوروں کے ہاتھوں پنجابی مسلمانوں اور سکھوں پر ہونے والے مظالم،پنجابی کی تباہی،تقسیم پنجاب میں ہونیوالے قتل عام،پنجابی صوفی شعرا،پنجابی ہیروز اور پنجابی زبان کا وجود ہی نہیں۔ قیام پاکستان میں پنجاب کی قربانیاں سرے سے غائب ہیں۔ایسے غائب ہیں جیسے قیام پاکستان کے وقت پنجاب موجود ہی نہیں تھا۔
پنجاب کی اصلی تاریخ جو لکھی جائے تو تاریخ انسانی میں مزاحمت کی ایک مقدس کتاب بن جائے۔اگر پنجاب کی اصلی تاریخ لکھ کر پنجابیوں کے آگے رکھ دی جائے تو وہ یہ حقیقت جان کر ماتم کرنے بیٹھ جائیں گے کہ کس طرح منظم انداز میں پنجاب پر انگریزوں کے قبضے سے لیکر کر آج تک ان کی نسلی و لسانی نسل کشی ریاستی نگرانی میں کی گئی۔کیوں کر انہیں اپنی قدیم پنجابی شناخت اور زبان سے ،اپنی دھرتی سے متنفر کیا اور کاٹا گیا ہے۔پنجاب کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا گھناونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔پاکستانی ریاست پنجاب کے وجود، پنجابی زبان اور پنجابی اکژیت کو اردوائیزیشن اور سراءیکیافیکیشن کے خوفناک عمل کے ذریعے ختم کرنے کے مجرمانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
پنجاب میں پنجابی زبان کے تعلیمی، سرکاری، دفتری، عدالتی اور پارلیمانی زبان بننے کے آئینی،قانونی،جمہوری،انسانی اور فطری حق پر ریاست نے یونہی پابندی نہیں لگا رکھی۔پنجاب میں پنجابی زبان کا راستہ روک کر اردو اور سرائیکی کو ریاستی نگرانی میں آگے بڑھانے کے ریاستی ایجنڈے کا واحد مقصد پنجابی بولنے والی اکثریت اور اکثریتی پنجابی زبان کا پنجاب اور پاکستان سے بتدریج مکمل خاتمہ ، پنجابیوں کی نسلی ولسانی نسل کشی اور اقلیت میں بدلناہے۔ مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطرپنجاب کی زمانہ قدیم سے ناقابل تقسیم قومی وحدت کو متنازعہ بنا کر پنجاب کی پیٹھ میں ایک اورمجرمانہ تقسیم کا چھرا گھونپنے کی سازش ہو رہی ہے۔
عرب ایرانی اور مصری مسلمان اپنی قدیم تہذیب پر فخر کرتے ہیں. مصری مسلمان اپنے فرعونی دور عظمت اور ایرانی مسلمان اپنے آتش پرست ماضی پر فخر کرتے ہوئے اسے چوہدا سو سال سے سنبھال کر بیٹھے ہیں۔مگر پانچ ہزار سال قدِم تاریخ پنجاب جو کلیتا مزاحمت کی تاریخ ہے اسے پنجابیوں سے چھین کر نفرت کے پتھر سے باندھ کر بحیرہ عرب میں غرق کردیا گیا ہے۔مہا بھارت کس سرزمین پر لڑی گئی۔رگ وید کہاں تخلیق ہوئی۔ پاکستانی تاریخ دانوں کی مذہبی انتہاپسندی، نفرت اور تعصب کا شکار ہونیوالا عظیم فلاسفر چانکیہ جس کا نام و نشان اسے ہندو قرار دے کر تاریخ پنجاب سے حرف غلط کی طرح مٹایا گیا کیا بہاری تھا یا پنجابی؟
صدیوں سے تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو چکے یاگم کردیئے گئے پنجاب اور خود بھی تاریخ کی گذرگاہوں اور بھول بھلیوں میں اندھوں اور بہروں کی طرح بھٹکتے پھرتے یا پھر بھٹکا دیئے گئے فکرونظر کی گمراہی کے شکار پنجابیوں نے کبھی بھی اپنے مڈھ قدیم اپنے پنجاب کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔پنجابیوں نے پنجاب کی صدیوں قدیم عظمت،حریت،شجائت اور اپنے خون سے لکھی مزاحمت کی روائت پر مبنی مقدس کتاب کو کھول کر پڑھنے کی کبھی کوشش نہیں کی.پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ پنجابی سب کچھ جانتے ہیں لیکن اگر نہیں جانتے تو صرف اپنے پنجاب کو نہیں جانتے۔ہرگز نہیں جانتے۔اٹک سے جمنا تک اور پنجند سے جموں کشمیر ،چین کی سرحدوں تک پھیلا اور تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذر کرٹکڑوں میں بٹا پنجاب پنجابیوں کے بے حسی کے نتیجے میں ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہا ہے۔ریاستی نسلی ولسانی نسل کشی اورثقافتی دہشت گردی کے نتیجے میں لہجوں میں تقسیم کرکے قتل کردی جانیوالی آخری سانسیں لیتی پنجابی زبان کے ناقابل بیان اثرو رسوخ، پہنچ ،وسعت ،گہرائی اور بے پناہ سیاسی،سماجی، ثقافتی اور معاشی فوائد پہنچانے کی صلاحیت وقوت سے پنجابی بے خبر ہیں۔پنجابی زبان جسے پاک و ہند میں بیس کروڑ سے ذیادہ افراد مختلف لہجوں کی صورت میں بولتے اور سمجھتے ہیں کو مرکزی لہجہ،معیاری سکرپٹ, سرکاری سرپرستی اور Standardisation of Language کے عمل یا Process سے محروم رکھ کر اسے تباہ وبرباد کردیا گیا ہے۔
اردوپرنٹ والیکٹرانک میڈیا اورسرائیکی چینلوں,کی مدد سے پنجاب کی تقسیم، اردوائیشن آف پنجاب,سرائکیافیکیشن آف پنجاب,بارہ کروڑ پنجابیوں کو اردو بولنے والے ہندوستانیوں کی نسل میں بدلنے اور نیلی اجرکیں اور سندھی ٹوپیاں پہنا کر سرائیکی نسل میں کنورٹ کرنے کا مجرمانہ,جبری اور غیر فطری عمل بلا روک ٹوک جاری ہے۔سندھ اوربلوچستان سے پنجاب کی سرزمین پر آکر آباد ہونیوالے دس فیصد اقلیتی نسلی دہشت گردجوپنجاب میں سیٹلر،قبضہ گیراور پناہگیر ہیں۔جھوٹ،پروپگنڈےاورنسلی منافرت کو بنیاد بنا کرآج پنجاب دشمن سیاستدانوں اورپاکستانی ریاست کی آشیرواد سےآدھےپنجاب کوالگ صوبے کی صورت میں کاٹ کر ہضم کرنا چاہتے ہیں.پنجاب کونسلی ،لسانی، انتظامی، بدنیتی یا کسی بھی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تو پنجاب میں اس کا نتیجہ بلا شک خونی مزاحمت اور خانہ جنگی کی صورت میں نکلے گا۔
ساڑھے سات ہزارسال قدیم سلطنت سپت سندھو جس کا اجوکا وجود پنجاب ہے پر یہ الزام کہ ’’”پنجاب نے کبھی مزاحمت نہیں کی اور ہمیشہ حملہ آوروں کو خوش آمدید کہا تاریخ انسانی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے.”
نظیر کہوٹ