You are currently viewing <strong>جب سارا پنجاب سو رہا تھا مگر۔۔۔۔؟</strong>

جب سارا پنجاب سو رہا تھا مگر۔۔۔۔؟

پنجاب میں جدید پنجابی قوم پرستی ،پنجابی قوم پرست تحریک پنجابی حقوق پنجابی زبان کی سیاسی تحریک اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تحریک مزاحمت کی بنیاد کیسے پڑی کس نے ڈالی ؟
(پنجابی قوم پرستی ،پنجابی قوم پرست تحریک ،پنجاب کی تقسیم کےخلاف تحریک مزاحمت ، پنجابی لئنگوئج موومنٹ(پنجابی زبان تحریک) کے بانی اور پنجاب بچاو تحریک کے چیف آرگنائیزر پنجابی قوم پرست،لکھاری ،ناول نگار چوہدری نظیر کہوٹ کی چار دہائیوں پر محیط جدوجہد کی کہانی )

پنجاب کی تقسیم کے خلاف تحریک کی بنیاد 90-19میں پنجابی لوک سیوا اور ماہنامہ پنجابی اردو انگریزی نیوز میگزین جئینس کراچی کے پلیٹ فارم سے 90-1980,کی دہائی میں میں نے کراچی سندھ میں اس وقت رکھی. ۔جب سارا لہور ،سارا پنجاب سو رہا تھا خودساختہ نام نہاد سرئیکی زبان ،قومیت اور صوبہ کی سازش اورجنوبی پنجاب میں آباد سندھ بلوچستان کے مٹھی بھر نسلی ولسانی تعصب میں مبتلا سرئیکی پناہگیروں کے آگے لیٹا تھا۔ اور ترقی پسند , سُرخے ،پپلیئے لہوری دانشور سارے کے سارے ایک سےایک آگے بڑھ کرجاہلوں کی طرح پنجاب دشمن اور غدارکا کردار ادا کرتے ہوئے پنجاب کی پیٹھ میں فراڈ سرئکی زبان،قومیت،ثقافت اور صوبے کا چھرا گھونپ رہے تھے ۔پنجاب دشمن سیاسی پارٹیوں ، اردو میڈیا اور پنجاب دشمن غیرپنجابیوںکی منظم کردہ پنجاب کی غیرآئینی ،غیرقانونی ،مجرمانہ تقسیم کی گھناونی سازش کو انگریزی اور اردو پرنٹ میڈیا کےذریعے پنجابیوں کی نسلی ولسانی نسل کشی کے ذریعے ان کی نسل بدل کرپنجاب کے اندر ہی پروان چڑھایا جا رہا تھا۔ فراڈ سرئکی زبان ،قومیت،ثقافت اور صوبے کا چھرا گھونپ رہے تھے ۔

آج سے پچاس سال پہلے انتہائی کم عمری میں 1972 میں جب میں پندرہ سال کا تھا اور بدین سندھ میں ہائی سکول کا طالب علم تھا پنجابی قوم پرستی ،اپنی جڑوں اور اپنے پرکھوں کی دھرتی پنجاب سے اس وقت جڑا جب سندھ اسمبلی نے 7جولائی 1972کو سندھی کو سندھ کی واحد آفیشل یعنی سرکاری زبان قراردے دیا۔ جس کے ساتھ سندھ میں سندھی اردو لسانی تنازعہ اور فساد شروع ہوا .میں اس کا عینی شاہد ہوں ۔ اور اس میں اندرون سندھ پنجابیوں کو بھئ پنجابی سامراج اردو بولنے والا مکڑ یعنی مہاجر قرار دے کےشدید نسلی لسانی منافرت،تعصب,نفرت ,تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ کیوں کہ پنجابیوں نے بھی اپنی زبان بدل کر اردو کردی تھی۔ان میں اور مہاجوں میں فرق کوئی نہیں تھا۔پنجابیوں کو بھی سندھ دشمن اردو بولنے والے ہندوستانی سمجھ کر ویسا ہی سلوک کیا گیا . جنگ اخبار کی سرخی“اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے” والا اخبار دوسرے دن بازار میں آتے ہی سندھ میں سندھی اردو لسانی فساد شروع ہوگیا۔سینکڑوں پنجابی قتل کردئے گئے ۔پنجابی عورتیں اغوا کر لئ گئی اور پنجابیوں کی زمینوں پرقبضہ کرکے انہیں سندھ بدر کردیاگیا. کئی ہزار پنجابی رحیم یار خان کے کیمپوں میں پڑے رہے ۔ سندھ اور بعد میں کراچی میں پنجابیوں کے خلاف اس ساری نسلی ولسانی دہشت گردی ،قتل وغارت گری اور کراچی سندھ بدری کا میں بچن سے عینی شاہد ہوں ۔ مجھے کراچی اور سندھ میں پنجابی ہونے کی وجہ سے ہر وقت دہشت گردی کا نشانہ بننے اور جان جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا۔ کہ کوئی بھی پنجابی کراچی یا اندرون سندھ محفوظ نہیں تھا۔ مگر اس فساد کے دوران میری جان بچانیوالے بھی جئے سندھ والے ہی تھے۔

1992میں میری کتاب آو پنجابی کو قتل کریں کراچی سے شائع ہوئی اس زمانے میں جس کی ایک ہزار کاپیاں شائع ہونے کےایک ہفتے کے اندر اندر فروخت ہو گئی .1992میں میری کتاب آو پنجابی کو قتل کریں کراچی سے شائع ہوئی اس زمانے میں جس کی ایک ہزار کاپیاں شائع ہونے کے ایک ہفتے کے اندر اندر کراچی کے اردو بازار کے پنجاب بک ہاوس پر فروخت ہوگئیں۔ بعد میں ہزار کاپیاں مزید چھپیں جو لاہور،روالپنڈی اور ملتان میں بھی ایک ہفتے کے اندر اندر فروخت ہوگئیں ۔ اس کتاب کا پنجابی ترجمہ بھی لاہور سے ایک ہزار کی تعداد میں چھپا ۔ جس کی تین سو کاپیاں لاہور میں چند بک سٹالوں پر
فروخت ہوئیں ۔مگ کو چھاپنے والے نام نہاد پنجابی دانشور جمیل پال نے کئی سال تک بوری می بند کرکے دبائےرکھا بعد میں مجھے یہ کہہ کر واپس کردیں کہ پنجابی کوئی نہیں پڑھدا۔ سوال ایہ سی کہ جے پنجاب کوئی نہیں پڑھدا تے میرا خرچہ کیوں کروایا ،پنجابی ترجمہ کیوں کیتا تے چھاپیاں کیوں ۔ اگوں کوئی جواب ناہی ۔ وہ بھی تمام کی تمام بعد میں پنجابی دانشوروں ،لکھاریوں ،قوم پرستوں اور پنجابی تحریک سے وابستہ کارکنوں تک پہنچا دی گئیں ۔

ٰیوں آو پنجابی کو قتل کریں کی میری کتاب اور لہور پریس کلب میں پنجاب کی تقسیم کی گھناونی سرئیکی صوبہ سازش کےخلاف 31 دسمبر1993میں منعقدہ پریس کانفرنس کے ذریعے پنجاب کی معلوم تاریخ میں پنجاب کے اندر پنجاب کی تقسیم کے خلاف مزاحمتی تحریک اور پنجاب اور پنجابی قوم کے غصب شدہ آئینی قانونی اور ثقافتی حقوق کی بحالی اور بیداری کی
سیاسی تحریک شروع ہوئی جس نے پنجاب کو غیرپنجابی بنانے کی صدیوں پرانی سازش کو کچل کر رکھدیا اور پنجاب میں جدید پنجابی قوم پرستی اور پنجابی قوم پرست تحریک کی بنیاد رکھ دی گئی۔

یہ وہ وقت تھا جب کراچی پر ایم کیو ایم کا راج تھا۔پنجابی کراچی سے جبری بے دخل کئے جا رہے تھے اور بڑے پیمانے پرکراچی میں پنجابیوں اور پٹھانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی تھی ۔مگر پنجاب اس وقت سو رہا تھا۔کراچی کے پنجابی خوفزدہ تھے۔تب ٹھیک اس وقت نظیر کہوٹ نے کراچی کے پنجابیوں کئ تحفظ ،پنجابی زبان کے حق اور پنجابی کی تقسیم کے خلاف مزاحمت کا اعلان کرتے ہوئے پہلی پنجابی قوم پرست پارٹی لوک سیوا پاکستان کراچی (سندھ) سے لانچ کی۔اسی تحریک کےدوران کراچی میں مجھ پر آو پنجابی کو قتل کریں کتاب لکھنے پر قاتلانہ حملہ ہوا۔شارپ شوٹرز یعنی ٹارگٹ کلزر ایک دن پہلےمیرے گھر کے باہر یہ پرچی لکھ کر گیٹ پر چسپاں کرکے گئے۔’’آو پنجابی کو قتل کریں‘‘۔ میرے گھر کے باہر نعرے بازی ہوتی sتھی،”سندھی مہاجر بھائی بھائی دھوتی نسوار کہاں سے آئی۔”

اپنے ماہنامہ تین زبانوں پنجابی،اردو،انگریزی میں کراچی سے چھپنے والے نیوز میگزین ماہنامہ ’’جینئیس‘‘ کراچی جس کا میںایڈیڑ اور پبلشر تھا اور جس کے پنجابی شعبہ کے ایڈیٹر کچھ دن کراچی میں جناب افضل ساحر بھی رہے ۔اسی میگیزین پر پنجاب کی تقسیم کی سرائیکی صوبہ سازش کا پردہ چاک کیا اور اعلان کیا کہ
’’میرا جینا مرنا دھرتی ماں پنجاب لئی اے۔موت منطور پنجاب دی کسے وی قسم دی ہک ہور ونڈ منظور نہیں ‘‘نظیر کہوٹ نے30 سال پہلاں ایس گل اعلان کرکے سرائیکستان وچ تے پورے پاکستان وچ سرائیکی دے حمائتی پنجاب دشمناں دے گھر وچ پھوہڑی وچھا دتی۔ پنجاب دی ونڈ دے خلاف پنجاب دی تاریخ وچ پہلی واری پنجابیاں دی قومی تحریک مزاحمت دی
بنیاد رکھی۔

ماہنامہ جنئیس کراچی کے صفحات سے ہی پنجاب کی مجرمانہ تقسیم کی گھناونی اور ناپاک سرئیکی صوبہ سازش کا پردہ چاک کیا گیا۔ جس لہور کے ترقی پسند دانشوروں کے حلقوں میں پر ملک بھر میں اور بالخـصوص پنجاب دشمن صحافتی ، ترقی پسند حلقوں کو پنجاب کی کو ہلا کر کررکھدیا ۔ کہ آج تک پنجاب کی تقسیم کے خلاف کوئی نہ بولا تھا ۔یہ پنجاب کی معلوم تاریخ میں پہلی بار ہواتھا کہ کوئی پنجابی پنجاب کی تقسیم کی پنجاب دشمنوں کی سرئیکی صوبہ سازش کے خلاف کلہ ٹھوک کر میدان میں اترا تھا۔ نتیجہ آج پینتیس سال گذرنے کے بعد اور سوشل میڈیا پر میری بارہ سال تک مسلسل تحریک کے بعد پنجاب کی تقسیم کی سرئیکی سازش کے خلاف پنجابی لکھاری ،دانشور،قوم پرست،شاعر،ایکٹیوسٹ اور بالخصوص شیردلیر نئی پنجابی نسل پنجاب کی تقسیم کی سرئیکی صوبہ سازش کے خلاف سربف ہو چکی ہے ۔ اور پنجاب کی تقسیم کی سازش میں ملوث اردو میڈیا ، سرئیکی پناہگیر اور پنجاب دشمن سیاسی پارٹیاں اور قوتیں راہ فرار اختیار کررہی ہیں ۔پنجابیوں کو یہ پنجاب دشمنوں اور پاکستان دشمنوں کی یہ سازش سمجھ آچکی ہے کہ پاکستان توڑنے ،پنجابی زبان کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پنجاب کو تقسیم در تقسیم کرکے اور پنجابی کے لہجوں کو الگ الگ زبانیں بنا کر ساتھ ہی پنجابی کو دبا کر پنجاب ،پنجابی زبان ،پنجابی قوم کو ختم کیا جا سکتا ہے اور پاکستان کو توڑا جا سکتا ہے ۔ پاکستان توڑنے کے لئے اور پنجاب کے دریاوں اور پانیوں پر قبضہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پنجاب کو تقسیم در تقسیم کردیا جائے ،پنجابی اکثریت
کو نسلی لسانی ثقافتی نسلی کشی اور دہشت گردی کے ذریعے اقلیت میں بدل کر ختم کردیا جائے ۔
image.png
یہ وہ مشکل اور سخت دور تھا سارا پنجاب سور رہا تھا۔لاوارث تھا مگر ایک شدھ پنجابی جاگ رہا تھا ۔ جو شاہ پورسرگودھا کا وسنیک جٹ ہے اور جس کا نام چوہدری نظیر کہوٹ ہے ۔ تب وہ پنجاب کی قومی وحدت و سالمیت اور پنجابی زبان وثقافت کی بقا کے لئے اپنے قلم کا گنڈاسا بنا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور پنجابی ادب کی تاریخ میں پہلی معلوم پنجابی قوم پرست کہانی اخیرلا
پنجابی تخلیق ہوئی جس کے قلم سے ۔ورنہ اس سے پہلے پنجابی شعرو شاعری اور ایک مردہ ادبی تحریک تک محدود تھی۔30 سال پہلے جب سارا لاہور اور سارا پنجاب سو رہا تھا،مگر پنجاب کا راکھا شاہ پور سرگودھا جہلم دریا کے کنڈھے کا وسنیک نظیر کہوٹ جاگ رہا تھا۔ پنجاب کی قومی وحدت وسالمیت ،پنجابی زبان و ثقافت کی بقا کی جنگ کا آغاز کرچکا تھا۔پنجاب ،پنجابی زبان ،پنجابی قوم کے غصب شدہ آئینی ،قانونی ،انسانی ،جمہوری اوربنیادی حقوق کی بحالی کی سیاسی جدوجہداور پنجاب کی تقسیم کے خلاف مزاحمتی تحریک کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اور جدید پنجابی قوم پرستی اور پنجابی قوم پرست تحریک کا آغاہو چکاتھا۔

یہاں پشتون نسل پرستی اور تعصب میں مبتلا عمران خان کا ذکر بھی ضروری ہے ۔ کہ عمران خان جب شوکت خانم ہسپتال کے لئے کراچی میں چندہ جمع کر رہا تھا تو کراچی ڈیفنس میں اس سلسلے میں ایک دوست کے گھر میں منعقد ہونیوالی ایک تقریب میں جہاں پہلی بار میری ملاقات عمران خان سے ہوئی میں نے اسی جنئیس میگزین کے دو شمارے عمران خان کو پیش کئے ۔ایک کے ٹائٹیٹل پر سرائیکستان کا نقشہ ،سرائیکی صوبہ اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف شہ سرخی تھی اور دوسرے شمارے کے ٹائیٹل پر عمران خان ایک قومی ہیرو یا نجات دہندہ کا خاص مضمون تھامیرا لکھاہوا۔عمران خان نے سرائیکی والا شمارہ بے رخی سے میز پر ایک طرف سرکار دیا مگر جس پر اس کی تصویر تھی دعامانگتے ہوئے اس کی ورق گردانی گرنے لگا۔مجھے میسج مل گیا تھا عمران خان کبھی بھی پنجابی نہیں تھا،ہمیشہ سے پنجاب سے نفرت کرنیوالا پشتون تھا۔ عمران خان نے پنجاب سے اپنی نفرت اور پشتون ہونے کے اپنے نام نہاد نسلی تعلق پر ہمیشہ فخر کا اظہار کیا جسے مگر احمق پنجابی نہیں سمجھتے کہ یہ شخص پنجاب کی سالمیت کا دشمن اور فراڈ سرئیکی صوبے کا سپورٹر اور صوبہ سرحد اور سندھ کی تقسیم کا مخالگ مگر پنجاب کی تقسیم کا حمائتی ہے ۔ جس کے اباو اجداد نیازیوں کو متعصب نسل پرست شیر شاہ سوری نے پانچ سو سال پہلے قندھار سے
لاکر پنجاب اور خاص کر میانوالی ،سرگودھا اور خوشاب کے علاقوں میں آباد کیا کہ شیر شاہ خود بھی خوشاب میں پیدا ہوا تھا۔عمران خان جب مینار پاکستان پر پنجاب کی تقسیم اور جنوبی پنجاب سرائیکی صوبہ کے قیام کا ایجنڈہ پیش کرکے تالیاں بجا رہا تھا تو مجھے تیس سال پہلے والا عمران خان یاد آ رہا تھا جس کے ساتھ ہر وقت عطااللہ عیسی خیلوی سرائیکستان کے ترانے
گاتا پھرتا ہوتا تھا۔

پنجاب کی قومی وحدت وسالمیت پر جنوبی پنجاب میں آباد سندھ وبلوچستان کے متعصب نسل پرست سرئیکی پناہ گیر پنجاب سےنفرت کی علامت خود ساختہ جعلی سرئیکی زبان وقومیت و سرئیکی بیلٹ کا چھرا اٹھا کر عظیم پنجابی شاعر خواجہ غلام فرید پر اور پنجابی کے لہندے لہجے جو سرئیکی زبان قرار دے کرپنجاب کی قومی وحدت وسالمیت پر آدھے پنجاب پر پنجند پر بدنیتی و سازش کے تحت قبضہ کے لئے حملہ آور ہوچکے تھے ۔

سرائیکی بیلٹ اور نام نہاد سرئیکی وسیب (یاد رہے کہ وسیب پنجابی کے شاہ پوری لہجے کا لفظ ہے جسے سرئیکیوں نے چوری کرکے سرئیکی قرار دے رکھا ہے ) کی اصطلاح جو سانپ کی طرح لہراتی بل کھاتی آدھے پنجاب کو ڈسے جا رہی تھی اک سفید جھوٹ تھی ۔مجھےاندازہ ہو چکا تھا کہ اگر اسے نا روکا گیا تو چالیس سالے پہلے ملتان میں میں نے سرائکستان کو جو نقشہ دیکھا تھا یہ سرائیکی بیلٹ اس پر منتج ہوگی۔

پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار میں نے ہی نوائے وقت کراچی میں 1990 میں پنجاب کی تقسیم اور سرئیکی تحریک کے خلاف سلسلہ وار مضامین لکھ کر پنجاب کی تقسیم کے خلاف تحریک مزاحمت کی بنیاد کرکھی۔

31دسمبر 1992میں عالمی پنجابی کانفرنس لہور کے موقعہ پر لہور پریس کلب میں پنجابی لوک سیوا کے پلیٹ فارم سے ایک پریسکانفرنس سندھ سے آکر کی. میں پہلا اور واحد پنجابی ہوں جس نے پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ایک پنجابی کی حیثیت سے لہور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کی تقسیم کے خلاف تحریک کی بنیاد رکھی ,جس میں ایک پنجابی قوم پرست کی حیثیت سے سیاسی و فکری عملی جدو جہد کا آغاز کیا اور پنجاب میں فراڈ من ,گھڑت سرئیکی زبان قومیت،علاقے ،صوبے ثقافت کی سازش کے خلاف پنجاب کے عوام کو پنجاب کی سالمیت اور قومی وحدت پر اس خطرناک حملے سے آگاہ کیااوراس کے خلاف پنجابی اکثریت کو منظم کرنا شعور اور بیداری کی مہم پنجاب میں شروع کی ۔

مجھے یقین ہے میرا ایمان ہے کہ پنجاب پاکستان کی سلامتی آزادی اور بقا کا ضامن اور پنجاب کی تقسیم کی سرئیکی صوبہ سازش پاکستان توڑنے ، پنجابی زبان و ثقافت کے قتل ،پنجابی اکثریت کی زبان بدل کر اردو کرنے اور پنجابی کی نسلی ولسانی نسل کشی کی بھیانک سازش ہے ۔جے ہر صورت میں کچل دیا جائے ۔اس لئے کہ سرئیکی پنجاب میں پناہ گیر اور قبضہ گیر غیر
مقامی ہیں یہ سندھ اور بلوچستان،سرحد ،افغنانستانکے بھگوڑے اور پناہگزین ہیں جو پنجاب میں دھوکے بازی اور انگریز کے کتے دھونے والے تحریک آزادی کے غداروں کے ساتھ مل کر آدھے پنجاب ،پنجند، پر قبضہ کی مجرمانہ سازش میں ملوث ہیں ۔

پنجابی عالمی کانفرنساں وچ تے ہور کسے وی پلیٹ فار م لہور،پنجاب،پاکستان وچ کدی کسے پنجاب دی ونڈ دی یا ایدے لئی منظم کیتی گئی سرائیکی تحریک بارے کوئی گل نہیں کیتی۔اوس توں پہلاں کوئی بندہ اج تک پنجاب دی ونڈ تے سرائکی دے خلاف پنجاب وچ کدی اک لفظ نہیں بولیا۔۔ جے کوئی بولیا ہووے تے وکھاوے۔

کراچی سندھ توں میں آکے پہلی واری لہور وچ8 اگست 2009 وچ پنجاب دی سالمیت بارے پہلی پنجابی قومی کانفرنس (First
Punjabi National Conference) کروا کے اتھے پنجاب دی ونڈ دیے خلاف قرار داد منظور کروائی۔.

12 سال پہلاں 2008وچ سوشل میڈیا اتے پنجاب دے ونڈ دے خلاف ،پنجابی زبان دے حقاں تے سرائیکی سازش دے خلاف تحریک میں شروع کیتی۔

پنجابیوں کو پنجاب کی تقسیم روکنے کی غرض سے پنجاب اسمبلی کاگھیراو کرنے کا نعرہ میں نے لگایا جس پر سارے نام نہاد قوم پرست بھاگ کھڑے ہوئے کہ سرکار دربار سے انہیں ہڈی ڈالی جاتی ہے ۔ پنجاب کی تقسیم کے خلاف عوامی ،سیاسی ،نظریاتی ،فکری تحریک اور تنظیم کی بنیاد ،پہلی پنجابی قوم ہرست تنظیم پنجابی لوک سیوا کی بنیاد اور پنجاب قوم پرست تحریک کی بنیاد 1990 پہلے نظیر کہوٹ نے اس وقت رکھی جب سارا لہور سارا پنجاب سرئیکی کے آگے اردو کے آگے لیٹا تھا۔

21 فروری 2011کے روز ماں بولی عالمی دیہاڑ لہور کی سڑکوں پر علامتی بھوک ہڑتال اور مظاہرے کی بنیاد جناب اقبال قیصر کے ساتھ مل کر میں نے ڈالی ۔

“پنجابی کلچرڈے “پنجاب کی معلوم تاریخ میں پہلی بار لہور کی سڑکوں پر پہلی وساکھ 13اپریل 2011کو نظیر کہوٹ نے شروع کیا. پنجابی زبان تحریک کے جلسوں میں پنجابیوں کے قدیم زمانے میں جنگ پر جانے کے آلے ڈھول کو میں نے ہی پہلی بار لہور کی سڑکوں پر پنجابی کلچرڈے میں پگ باندھنے اور ڈھول بجا کر پنجابی رہتل اور پنجابی پگ دیہاڑ منا کر عوام کی توجہ
پنجابی تحریک پر دلانے کی رسم،روائت اور رواج ڈالا۔

پنجابی لینگوئج موومنٹ کی بنیاد نظیر کہوٹ نے 31دسمبر 2010 کو لہور میں لہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکھی ۔ رکھی ۔اس سے پہلے لہور میں پنجابی تحریک لہور میں ایک ادبی اور ثقافتی بیٹھک نشتند، گفتند،برخواستند تک محدود تھی ایک مردہ پنجابی ادبی تحریک تھی جسے لہور کی سڑکوں پر میں نے لایا۔پنجابی زبان تحریک یا پنجابی لینگوئج موومنٹ لاہور میں قائم کرکے اس کا دفتر بنا کر اس تحریک کو سڑکوں پر لا کر ایک سیاسی اور قومی تحریک بنا دیا۔

پنجاب کی تاریخ میں 29مارچ کو پنجابی زبان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ہر سال منانے کی بنیاد 2018 میں “29مارچ کالا دیہاڑ” یایوم سیاہ منانے کی بنیاد میں نے رکھی۔
15 اگست کے دن کو بطور “یوم سوگ پنجاب” منانے کا اعلان میں نے کیا۔

پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار پنجاب اسمبلی سے پنجابی لینگوئج ایکٹ منظورکروانے اور پنجابی لینگوئج اتھارٹی قائم کرنے اور پنجاب میں تمام سرکاری غیرسرکاری اردو میڈیم سکولوں کو ختم کرکے انہیں پنجابی اور انگریزی میڈیم سکولوں میں بدلنے کی مہم میں نے پنجابی لینگوئج موومنٹ کئ پلیٹ فارم سے میں نے شروع کی ۔

پنجاب کے خلاف پنجاب کلچرڈے کی لہوری سازش جو نام نہاد پنجابی تنظیم پنجابی پرچار اور ایک لہوری این جی او نے شروع کی جس کے ذریعے پنجاب میں سرئیکی کلچر،پوٹھوہاری کلچر، بلوچ کلچر، پشتون کلچر،میانوالی کلچر،سندھی کلچر کے دن پنجاب میں مناکر بزدار حکومت پنجابی سرخوں ،پپلئیوں ، یوتھیوں نے پنجاب کو متنازعہ لسانی صوبہ یعنی بنانے کی سازش میں نے بے نقاب کی اور ناکام بنائی .

کینیڈا کی مردم شماری میں پاکستانی پنجابی مسلمانوں کی مادری زبان بدل کر اردو کرنے کی انتہائی مذموم، شرمناک ،نفرت انگیز گھناونی مہم اردو مسلمانوں کی زبان ہے پنجابی سکھوں کی زبان کی ہے جو پانچ سال پہلے کینیڈا کی مردم شماری سال 2017میں شروع کی گئی اور جو بڑھتے بڑھتے کینیڈا سے نکل کر انگلینڈ اور کینیڈا دونوں ممالک کی 2021 کی مردم
شماریوں تک جا پہنچی اس خطرناک تحریک کو کینیڈا۔لندن اور امریکہ میں مقیم پنجابی دانشوروں ،دوستوں جن میں جناب طاہر اسلم گورا،جناب شہزاد ناصر،جناب افضل ندیم اور کینیڈا ،انگلینڈ میں موجود پنجابی میڈیا شامل ہے کہ مدد سے میں نے کچل کر رکھدیا ۔کہ یہ مہم کینیڈا کے قانون کے حوالے سے نفرت کے جرائم کے ضمرے میں بھی آتی تھی ۔پاکستان ہائی کمشن کینیڈا نے میری مہم پر اور کینیڈین پاکستانی شہریوں کی توجہ دلانے پر پنجابی شاہ مکھی سکرپٹ کو کینیڈا سرکار سے سرکاری طور پر گرمکھی سے الگ سکرپٹ تسلیم کرکے مردم شماری 2021کا مواد شاہ مکھی پنجابی میں شائع کرنے کی درخواست کی. یوں پاکستان سرکار نے پہلی بار دستاویزی طور پر شاہ مکھی یعنی فارسی سکرپٹ کو پنجابی زبان کا سکرپٹ تسلیم کرلیا۔ یوں کینیڈا کی تیسری بڑی زبان پنجابی کے خلاف نفرت بھری سازش جس کا مقصد پنجابی بولنے والوں کا اقلیت میں بدلنا اور پنجابی بولنے والوں کی زبان بدل کر اردو کرنا اور ہندوستانی کی تعدار اور اردو کو پنجابیوں کو ورت کر کینیڈا کی تیسری بڑی زبان بنانے کی سازش کچل کر رکھ دی گئی ۔

لہور میں ایک سرخوں پپلئیوں یوتھئیوں کی پنجابی نما سرئیکی تنظیم کے پلیٹ فارم سے لہور پنجاب اور پنجابیوں پر مسلط کرنے کی بھیانک اور گھناونی سازش فراڈ سرئیکی اجرکوں کی مارکیٹنگ کی سازش اور تحریک میں نے ناکام بنائی ورنہ یہ فراڈ سرئیکی اجرک کوسرئیکی زبان قومیت ثقافت ،صوبے کی علامت کے طور پر پنجابیوں سے اب تک تسلیم کروا چکے ہوتے ۔ پلاک میں لہوری سرخوں ،پپلئیوں ۔ٹاوٹوں ،بھارتی ایجنٹوں کی پلاک کے اندر پنجابی زبان کے لہجوں کوالگ زبانیں تسلیم کروانے کی گھناونی انتہائی منظم شرمناک سازش جس کے تحت پلاک میں فراڈ سرئیکی پوٹھوہاری، اردو پنجابی امن مشاعرے منعقد کرواکر پنجابی زبان کے قتل اور پنجاب کو سرئیکی پوٹھوہاری ،لہورصوبے میں تقسیم کرنے کی سازش کی گئی میں نے
بے نقاب کی اور کچل کر رکھ دی ۔

سرائیکی بیلٹ کی اصطلاح کو کاونٹر کر نے کی غرض سے میں نے ہی اس علاقے کے لئے “جنوبی پنجاب” کی اصطلاح اپنی کتاب آو پنجابی کو قتل کریںمیں پہلی بار متعارف کروائی.اور پنجابیوں سے کہا کہ سرائیکی بیلٹ کی بجائے یہ اصطلاح “جنوبی پنجاب” استعمال کرو۔اس کے بعد بتدریج سرائیکی بیلٹ کی اصطلاح منظر سے غائب ہوتئ گئی اور آج صرف جنوبی پنجاب کی اصطلاح ورتی جا رہی ہے ہر طرف۔

سرائکستان کے رنگ میں بھنگ پڑ چکی تھی۔ اور سرئیکی کے حمائی پنجاب د شمن دانشوروں ،سرئیکیوں ، صحافیوں ،کالم نگاروں اور اردو میڈیا میں موجود پنجاب دشمن کالی بھیڑوں کی کی چیخیں مریخ پر واقع مملکت سرائیکستان تک سنائی دے رہی ہیں. راوف کلاسرا نے لکھا اپنے ایک کالم میں `¨سرائیکی بیلٹ کو جنوبی پنجاب میں غائب کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔یہ سارا تو سرائیکی علاقہ ہے اسے میڈیا جنوبی پنجاب کیوں کہتا ہے“ ۔جب کہ میں کہتا ہوں جنوبی پنجاب نوے فیصد پنجابی اکثریتی علاقہ ہے اور نیلی اجرک بانٹنے والا سرائیکی پناہگیروہاں صرف دس فیصید ہے۔ ۔نوے کی دہائی میں کراچی میں اس کتاب کے دو ایڈیشن ایک ایک ہزار کی تعداد میں چھ مہینے میں دوبار چھاپے گئے .

1980-90 کی دہائی یہ وہ دور تھا جب لاہور میں رائٹ لیفٹ کا دانشور ،کالم نگار،لکھاری ہر پنجابی سرائیکی کا حماتئ تھا۔میری کتاب آو پنجابی کو قتل کریں اور میگیزین جئینیس میں پنجاب کی تقسیم کے خلاف مسلسل مہم پر سرائیکی سازش پر عبداللہ ملک مرحوم نے قسط واری مضمون روزنامہ پاکستان لاہور میں لکھا کہ سرائیکی الگ قوم اور زبان ہے ۔جب میں نے انہیں فون پر کہا کہ پیپلز آف پاکستان والی روسی کتاب پنجاب کی تاریخ کے بارے میں جھوٹ پر مبنی ہے تو وہ لاجواب سے ہوگئے اور مجھے لہور آکر ملنے کے لئے کہا۔ان کے گھر پر لئی گئی تصویر جنئیس کے صفحات پر موجود ہے.
“آو پنجابی کو قتل کریں”,اس کتاب کی اشاعت کے چند ماہ بعد کراچی میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔جس کی ایف آئی آر آج بھی ڈیفنس تھانہ فیز ۱ کراچی میں درج ہے ۔حملہ کرنیوالے “آو پنجابی کو قتل کریں” کی پرچی تین دن پہلے ڈیفنس میں میرے گھر کے گیٹ پر چسپاں کرکے گئے تھے ۔۔میری اس کتاب کا حوالہ
The Punjabi Movement by: Tariq Rehman
ڈاکٹر طارق رحمان کی پنجابی لینگوئج موومنٹ اور
Speaking Like a State: Language and Nationalism in Pakistan Book by Alyssa Ayres
میں بھی موجود ہے۔ نا صرف میری کتاب کا بلکہ اسی کی دہائی میں پنجابی قومی تحریک میں ڈاکٹر طارق رحمان نے نظیر کہوٹ،الیاس گھمن اور سعید احمد کی خدمات کا ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے۔

سندھی دانشوروں ،ادیبوں کے ساتھ گفتگو کرکے انھیں پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبے کی حمائت سے میں نے ہٹایا۔کسی کو معلوم نیں سندھ اسمبلی میں سسی پلیجو کی سندھی،پنجابی،بلوچی اور پشتو صرف چار زبانوں کو پاکستان کی قومی زبانیں قرار دینے کی تحریک پاس ہونے کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے۔جب سندھیوں نے (پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر) سرائیکیوں سے مونہہ موڑ لیا تو راوف کلاسرا کی چیخیں ایک کالم کی صورت میں پھر ایک بار مریخ تک پھیلی سلطنت سرائیکستان تک ایک
دنیا نے سنیں۔سندھیوں کے دل میں بلھے شاہ کے پنجاب اور پنجابیوں کی محبت موجود ہے میں اس کا گواہ اور ثبوت ہوں۔

ماروی میمن کو میں نے لاہور بلاکر مسعود کھدر پوش ٹرسٹ کے دفتر میں نے پنجابی دانشوروں،ادیبوں سے ملاقات کروائی تا کہ وہ قومی اسمبلی میں پنجابی ،پشتو،بلوچی اور سندھی کے ساتھ ساتھ سرائیکی کو پاکستان کی قومی زبان کا جو بل پاس کروانے کی کوشش کر رہی اسے روکا جائے۔
پنجاب اور پنجابی کاز اس جدوجہد میں کراچی اور لہور میں میرے اوپر دو قاتلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں۔اور بھی بہت کچھ کہنے سننے کو ہے ۔یہ وہ دور تھا جب لہور اور پنجاب میں ہر پنجابی سرائیکی کا حمائتی تھا۔اور اسے الگ زبان ،قومیت اور علاہ سمھتا اور ان نیلی اجرک والے پناہگیروں کے آگے دم ہلاتا تھا۔کہ ان نام نہاد پنجابیوں کا پنجاب لہور شہر کی حدوں سے باہر
ختم ہوجاتا تھا،باقی سارا پنجاب انہوں سرائیکستان بنانے کے لیے دشمن کے حوالے کردیا۔

چالیس سال پہلے میں جب سرائیکی سانجھ کا ایک پمفلٹ پڑھا ملتان میں ۔جس پرلکھا تھا۔ ’’روہی ،،پنجند،چولستان،پاک پتن،کوٹ مٹھن،بابا فرید،خواجہ فرید ،ملتان،ڈیرہ ،ریاستی سب سرائیکی ہے پنجابی نہیں تو میں کئی راتوں تک سویا نہیں تھا۔کچھ سمجھ نا آتا تھا یہ سات ہزار سال قدیم پنجاب کی قومی علامتیں یکسر راتوں رات سرائیکی کیسے بن گئیں۔

بابا فرید،نانک ،شاہ حسین ،بلھے شاہ،وارث شاہ،سلطان باہو،،یں محمد بخش،خواجہ فرید کی زبان تو دنیا کا ہر پنجابی بولتا اور سمجھتا ہے۔یہ پنجاب میں ایک غیر وجود سرائیکی کہاں سے اور کیسے در آیا۔جو پنجاب کی ہر شناخت اور ملکیت پر سرائیکی کا ٹھپہ لگا کر اسے اغوا کرتا جا رہا ہے ۔اور پنجاب میں اس فتنے کی جو پنجاب اور پنجابی کی موت ہے کسی کو خبرتک نہیں۔میرا شہر شاہ پور سرگودھا سرائیکی کیسے ہو گیا،سرگودھا میں واقع مڈھ رانجھا کا رانجھا اور جھنگ کی ہیر سیال تو پنجابی ہیں یہ کب سے اور کیسے سرائیکی ہو گئے۔خواجہ فرید کو ڈھیسوں نے کیسے پکڑا۔میری ماں نے تو مجھے بتایا تھا۔دریائے جہلم کے کنارے کھڑے ڈوبے سورج کی طرف اشارہ کرکے ’’توں پنجابی ایں ۔پنجاب دی جم پل‘‘ وہ دن گیا آج کا دن ہوا۔میں سرائیکی تحریک کو چالیس سال سے سٹڈی کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ سرائیکی تاریخ انسانی کا سب سے بڑا نسلی،لسانی ،ثقافتی جھوٹ اور فراڈ ہے۔جو پنجاب میں ریاستی نگرانی میں کھیلا جا رہا ہے تا کہ
پنجاب کو تقسیم کرکے پنجابی زبان اور اکثیریت کو ختم کردیا جائے۔

ساٹھ سال پہلے سرائیکی کا پنجاب, روئے زمین پر کہیں کوئی نام و نشان نہ تھا۔اردو میڈیا سرائیکی کا سب سے بڑا ترجمان اور پلیٹ فارم ہے۔پنجابی کو اردو اور سرائیکی کے ذریعے پنجاب میں ساٹھ ستر سال سے ریاستی نگرانی میں ختم کیا جا رہاہے۔پنجاب زبان کا حق غصب کرکے اور اردو اور سرائیکی کو پنجاب میں کھلی چھٹی دے کر۔

اس سارے عمل کے دوران میں کسی غیر نہیں بلکہ اردو اور سرئیکی کے حمائتی پنجابی پنجاب فروش ، دکاندار،پیداگیر،مخبر،گالم گلوچ کے عادی ،بدنسل،بدذات،بدزبان،بدتہذیب ،منافق اور جھوٹے پنجابیوں کے ایک مٹھی بھر گینگ نے کے ایک مخصوص ٹولے کی نفرت،گالی ،کردارکشی کا شکار میں 8سال سے بنا ہوں ۔لہور میں سرئیکی کے حمئائتی پنجابی سرخوں ،دانشوروں
،تنظیموں کو میں نے بے نقاب کیا جن کے ایک ہاتھ میں سرئیکی کا اور دوسرے ہاتھ میں پنجابی کا جھنڈا تھا۔جو سرئیکی اجرک کی مارکیٹنگ کررہے تھے ۔پنجابی زبان کے لہجوں کو زبانیں بنانے کی سازش کررہے تھے اور ساتھ پنجاب بن کر پنجاب کی پیٹھ میں سرئیکی کا چھرا گھونپ رہے تھے۔یو ان پنجاب فروشوں نے پچیس فیک آئی ڈیز بنا کر میری کردارکشی شروع کردی ۔مجھے ماں بہن کی گالیاں دیں اور میرے بارے ڈس انفارمیشن کی مہم شروع کرکے سوشل میڈیا پر ایک ایک پنجابی کو فون کرکے میری وڈیو،میری پوسٹ پر لائک کرنے کمنٹ کرنے اور شئیر کرنے سے روکا۔

حیرت ہے یہ بےشرم لوگ پنجاب کی تقسیم کے لئے پلاک میں سرئیکی پوٹھوہاری پنجابی اردو امن مشاعرے کروا کر اور پنجاب سے نفرت کی علامت نیلی سرئیکی اجرک پہن کر بھی پنجابی ہیں ۔ اور لعنت ہے ان سب پر جو ان کے ہم نوالہ اور پیالہ ہیں پنجابی ہوکر بھی اور الٹا گالیاں بھی نظیر کہوٹ کو دیتے ہیں ا سلئے کہ کہوٹ نے پنجابی کے نام ہر گذشتہ تیس سال سے چلتی سرئیکی دکانیں این جو اوز کا پول کھول کر ان کی پنجاب فروشی اور پنجاب سے پنجابی تحریک سے غداری کا گندہ دھندہ پول کھول دیا ۔

کوئی مانے نا مانے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتاسوشل میڈیا پر بارہ سال پہلے میں نے پنجابی قوم پرستی کی تحریک ،پنجابی زبان کے آئینی حقوق اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تحریک شروع کی ۔آج سوشل میڈیا پر جتنے پنجابی قوم پرستی کے دعوے دار ہیں ان میں سے اکثریت کا 8 سال (2014 سے )پہلے وجود اور نام ونشان تک نہ تھا۔سب میرے نقشے قدم پر چلتے میری پنجابی تبلیغ کی نیتجے میں پنجابی بنے ۔بتیس سال پہلے کی بات ہے ۔ جب کہوٹ پر بھونکنے والے کتوں اور کردارکشی کرنیوالے بدذاتوں,بدنسلوں اور ولدحراموں کی اکثریت ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی یا پھر پنجابی نہیں بنی تھی.قومیتی شعورسے بانجھ تھی اور جب پنجابی حقوق کی سیاسی تحریک اور ثقافتی تحریک کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔

گذشتہ چالیس سال میں میں نے بلا ناغہ پنجابیوں میں قومی بیداری اور نئی پنجابی نسل کی فکری و نظریاتی تربیت اور انہیں پنجاب اور پنجابی زبان و ثقافت سے پنجابی تحریک سے پنجابی کاز سے پنجاب کی دھرتی سے جوڑنے کی غرض سے پنجاب اور پنجابی کاز کے لئےکتابیں لکھیں ،ناول لکھے کہانیاں لکھی ،ان گنت مضامین لکھے ،2008 میں سوشل میڈیا پر پنجابی تحریک شروع میں نے کی غرض سارئ زندگی پنجاب اور پنجابی کاز کے لئے وقف کیمجھے یاد نہیں اس وقت سے اب تک شائد سو سے ذیادہ وڈیوز میں پنجاب،پنجابی زبان ،پنجابی قوم ،پنجابی ثقافت کے حوالے سے مختلف موضوعات پر میں نے ان گنت وڈیوز کیں گذشتہ چوہدا سال میں ۔ان گنت مضامین لکھے ،پنجاب کاز کئ ٹی شرٹس اور ہیٹ بنوا کرپہن ہر اپنی تصویری شئیر کیں مگر سرئیکی کے حمائیتی اور پنجاب دشمن غدار جھوٹے دونمبری پنجابیوں نے فیک آئی ڈیز بنا کر میری ہر پنجابی سیوا کو گالی دی ۔

سب کی پنجابی سیوا کو میرا دل سے سلام۔مگر ان میں چند ایک گندے لوگ بھی ہیں جو پاگل کتوں کی طرح پنجابی تحریک کے مامے اور چیمپین بننے کے لئے مجھ پر بھونکنا اپنی خاندانی پیشہ فرض اور پنجابیت سمجھتے ہیں ۔کیوں کی کوڈھ،کرودھ،کینہ پروری ،بغض، گالی ان کے خون میں ہے اور پنجابی کے ذریعے ذاتی مفاد اٹھانا ان کا پیشہ اور گندہ دھندہ ہے ۔مجھے اپنے وقت کے انتہائی گندے ،گھٹیا جانوروں سے واسطہ پڑا ہے جو میری ساری زندگی کی پنجابی سیوا کو گالی دے کرپنجابی تحریک کو اغوا کرکے اس پر سرئیکی ایجنڈہ مسلط کرنے کی سازش کے کرداراور مہرے ہیں ۔اور میری کرداری کشی میں ملوث یہ تمام بدنسل، بدزبان،بدکردار، بدبودار، بدذات، بدتہذیب دونمبری پنجابی کتے ابھی اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے
پنجابی نہیں بنے تھے جو آٹھ سال پہلے پنجابی بنے اورنظیر کہوٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوے پنجابی بنے اور اج اس پر بھونکتے اوراسے ماں بہن کی گالیاں دے کر اپنے رگوں میں موجود گندے ،نیچ اور گھٹیا نسل اور خون کا ثبوت دیتے ہیں ۔جنہوں نے پنجابی کاز کو پیدا گیری ،بلیک میلنگ اور گالم گلوچ کا اڈہ بنا کر رکھ دیا ہے ۔ پنجابی کے نام پر ،پنجابی کانفرنسوں کے نام پر ، سیلاب زدگان کی آڑ میں پنجابی تحریک کا پلیٹ فارم ورت کر کروڑوں کی لوٹ مار ان نوسربازوں ،ٹھگوں ،پیداگیروں نے اپنا دھندہ اور پیشہ بنا رکھا ہے ۔ جب کہ میرے نزدیک پنجابی کاز ہماری ماں کی طرح مقدس ہے اسے ذاتی مفاد کے لئے ورتنا ایک ناقابل معافی جرم اور پنجاب اور پنجابی قوم سے غداری ہے ۔

میں یہ بھی نا لکھ کر شئیر کرتا اگر چند مٹھی بر پیدا گیر جو لہور میں پنجابی تحریک کا پلیٹ فارم اغوا کرکے اسے اپنے ذاتی مفاد اور میرے خلاف پرپگنڈہ کے لئے ورت رہے ہیں۔ پنجاب اور پنجابی کے حقوق کی مزاحتمی تحریک میں میرے طریقہ کار۔سوچ،فکر اور نظریہ پنجابیت پر غلیظ مواد شئیر نا کرتے جومیرے بارے میں ۔بلاجواز انتہائی گھٹیا ،سطحی اور بازاری زبان استعمال کرتے ہوے میری کردار کشی کی مہم سوشل میڈیا پر چلا رہے ہیں ۔جب کہ میں نے کبھی ان میں سے کسی کے خلاف ایک لفظ تک لکھ کر پوسٹ کیا نا شئیر کیا۔ان کی ذہنی حالت اس قدر خراب اور ابتر ہو چکی ہے کہ یہ کسی کو اختلاف رائے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں ۔.یہ جاہل لوگ اس شخص پر جو ساری زندگی پنجاب اور پنجابی کے حق کی جدوجہد کرتے ہوئے جیا اور مرا اسے کیوں کر گالیاں دے رہے ہیں۔ ہیرالڈ میگزین وچ ایس ٹولے نے اک مضمون لکھوا کے منظم طریقے نال پنجابی تحریک دی سٹھ سال دی تاریخ بارے دروغ گوئی کیتی.

مزید یہ کہ میں چار پنجابی کتابوں کا مصنف بھی ہوں ۔ دو ایوارڈ یافتہ پنجابی ناول دریا برد اور واہگا ، مختصر پنجابی کہانیوں کی کتاب اخیرلا پنجابی ،تحقیقی ریفرنس بک آو پنجابی کو قتل کریں میرے کریڈٹ پر ہیں ۔ سہ لسانی نیوز میگزین جینئیس کراچی کا ایڈیٹر اور پبلشر بھی رہا ہوں ۔ اس کے ساتھ ہی پنجابی تحریک میں موجود اچھے اور گندے لوگوں کے بارے میں بڑی اور بنیادی جانکاری رکھتا ہوں ۔جس پر میں اپنی یاداشتوں میں بات کروں گا۔

سب گواہ ہیں۔میں نے ساری زندگی جدوجہد کی ہے پنجاب کی تقسیم کے خلاف۔اور پورے پانچ سال اس تحریک کو کراچی سندھ کے پنجابیوں کی حقوق اور پنجاب میں پنجابی زبان کے آئینی حق کی بحالی اور پنجاب کی تقسیم کی سازش کے خلاف پنجابی قوم میں بیداری متحد کرنے کی غرض سےپنجابی لوک سیوا کے کے لئے اور انہیں ایک پنجابی پلیٹ فارم پر منظم کرنے کی غرض اپنے شب و روز ایک کردیئے ۔ پنجاب میں پنجابی زبان تحریک (پنجابی لینگوئج موومنٹ) منظم کرنے کی غرض سے ، پنجابی زبان و ثقافت کی ترقی کی غرض سے لاہور اور کراچی میں کانفرنسوں کے انعقاد سے لے کر عالمی ماں بولی دیہاڑ منانے اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف لاہور میں احتجاج اور مظاہرے منظم کرنے تک پنجابی تحریک کے کو منظم کرنے کی
غرض سے روز اول سے آج تک نہ کبھی کسئ پنجابی سے کسی ادارے سے یا غیر ممالک میں مقیم پنجابیوں سے کبھی کوئی چندہ مانگا نہ کبھی ایک پائی تک وصول کی ،جو بھی کیا اپنے محدود مالی وصولی اور اپنی محنت کی کمائی ہی پنجابی تحریک اور پنجابی کاز پر لگا کرکیا۔

پنجاب کی تقسیم اورپنجاب کے ساتھ ہونیوالے سرئیکی فراڈ کے خلاف تحریک کب ،کہاں ،کیسے شروع ہوئی کس نے شروع کی. نظیر کہوٹ نے31 دسمبر 1992 کو لہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےجب یہ جملہ کہا
“موت منظور ہے پر پنجاب دی ونڈ منظور نہیں ۔جان جاندی تے جاوے پر پنجاب نہ جاوے ۔پنجاب میرے پرکھاں دا ہزاراں سال قدیم دیس تے وطن ہے تے میرئے کول اہناں دی امانت ہے ۔ پنجاب اک ناقابل تقسیم نسلی لسانی انتظامی ، ثقافتی ،جغرافیائی ،تاریخی تے قومی وحدت ہے ، کوئی مرے یا جیوے پنجاب دی ونڈ نہیں ہون دینی ۔ جیہڑا اپنے آپ نوں پنجابی نہیں سمجھندا او پنجاب چھڈ دوے ۔پنجاب ازلاں توں پنجابیاں دی نویکلی مالکی تےاہناں دی قومی وراثت ہے”.تو یہ وہ دور تھا جب سرئیکی فتنا ابھی نیا نیا شروع ہوا تھا جنوبی پنجاب میاں جڑ پکڑرہا تھا جب عبداللہ ملک اور حمید اختر سمیت بڑے بڑےلہوری پنجابی سرخے ترقی پسند بطور فیشن فراڈسرئیکی زبان قومیت سرئیکی بیلٹ کے احساس محرومی پر سارے پاکستان میں اردو میڈیا کے ذریعے سینہ کوبی اور ماتم کرتے پھرتے تھے اور یہ پنجابی سرخے روشن خیالی ثابت کرنے کی غرض سے ملتان جاکر سرئکییوں کے ساتھ اظہار یکجحتی کی غرض سے روسی ووڈکا کے ڈرموں میں چھلانگ لگا کر غوطے لگا کر اپنا سرئکی غم غلط کرتے اور پنجاب کے ساتھ لسانی زنابلجبر کرتے تھے۔ جب سئرئیکی کے خلاف تحریک شروع کی تو بڑی بری پنجابی دکانیں جو سرئیکی مال بیچ رہی تھےیں لہور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔

پنجابی تحریک میں ایسے نام نہاد ,گمراہ پنجابی دانشوروں ،لکھاریوں ،شاعروں ،قوم پرستوں ، ترقی پسندوں ، سرخوں ,پپلئیوں,ففتھ کالمسٹوں ،اور غداروں کی کمی نہیں جوپنجاب کو تقسیم کرکے ،پنجابی زبان کوختم کرکے پنجاب کی زبان بدل کر اردو کرنے ,آدھا پنجاب یعنی سرئیکی صوبہ سندھ بلوچستان کے سرئیکی پناہگیروں کے حوالے کرنے ،پنجند اور باقی کے دو دریا سرنڈر کرنے کے گھناونے افعال اور سوچ کو پاکستان ،اسلام اور امہ کے عظیم تر مفاد میں مثبت اور مفید سمجھتے ہیں ۔اسی لئے یہ بہروپیئے لہور میں نام نہاد سرئیکی پوٹھوہاری ،پنجابی مشاعرے بھی کرواتے ہیں اور ساتھ ہی پنجاب،پنجابی تحریک کو بھی پنجابی کا جھنڈا اٹھا کرڈستے ہیں ۔مگر یہ مٹھی بھر پنجاب فروش اب ناکام ہوچکے ہیں ۔پنجابی تحریک سوشل میڈیا کی برکت سے جسے انہوں نے تیس سال سے ہائی جیک کررکھا تھا ان کے ہاتھ سے نکل گئی ار اب یہ تحریک شدھ پنجابیوں کے ہاتھ میں ہے ۔جو پنجاب اور پنجابی کے لئے لڑنے مرنے پر بھی تیار ہیں ۔

جے لہور وچ ہو تے ذرا اکھاں کھول کے اپنے آل دوالے ہک نگاہ مارو۔ تسیں ویکھو گے کہ اتھے ہر بندہ اردو بول رہیا. لہور وچ پنجابی زبان مک رہی ہے۔ سرئیکی پوٹھوہاری اردو دے ودھاوے تے پنجابی دی جڑ مارن دا گندہ دھندہ لہوری این جی اوز اپنے ہی کردےپئے ہن.

عالمی ماں بولی دیہاڑ اک احتجاج دا قومی دن ہے اپنی ماں بولی دے حقاں لئی ساری دنیا وچ پر پنجاب وچ تماش بین این جی او نے اوس دن کالیاں پٹیان بنھ کے کالیاں بھک ہڑتال کرن تے پنجاب اسمبلی داگھیروا کرن دی تھاںسرکار دی پنجابی زبان دے خلاف دشمنی دے خلاف احتجاج دے دن نوں وی نچن کدن تے ڈھول کٹن دا تماشا بنا دتا ۔.پنجابی کلچرڈے دا قتل کرکے بھنگڑے پائے جاندے۔ سرئیکی پوٹھوہاری، پنجابی ،اڑدو امن مشاعرے کروان والے ہی پنجابی کلچرڈے دے قاتل ہین ۔ ایہا عالمی ماں بولی دیہاڑ تے پنجابی تحریک دے وی لہور وچ کرتے دھرتے ہیں. سارےاہناں دا بائیکاٹ کرو۔کجھ نام نہاد دونمبری پنجابی قوم پرستاں دی پنجاب فروشی ،غداری تے دکانداری دا ,قومی غیرت دا لیول چیک کرو۔ایہاسرئیکی پوٹھوہاری پنجابی مشاعرے کراوندے ہن تے ایہا عالمی ماں بولی دیہاڑ وی مناوندے ہن ۔کیہ ایہ پنجاب فروش تہاڈی فرینڈز لسٹ وچ وی ہین۔کیوں?

میں آکھداں ہونداں کہ “میں پنجابی ہاں: پنجاب بناکیہ جینا تے کیہ مرنا?جے ایس دنیا وچ پنجاب ہی نہ رہیا تے پچھے کیہ رہیا۔چھنکنا۔ تے فیر ایس دنیا
نوں میں کیوں اگ نہ لادیواں”

پنجاب زمانہ قدیم توں میرے پرکھا ں دا قدیمی دیس ،پنجابی قوم دی نویکلی مالکی ،مڈھ قدیم ، دھرتی ماں تے پیارا وطن ہے۔ساری دنیا ایہ گل پلے بنھ لئے کہ پنجاب نہ معلوم ویلیاں توں اک ناقابل تقسیم نسلی ،لسانی ثقافتی ، جغرافیائی ،انتطامی تے قومی وحدت ہے ۔ پنجاب دا ہر وسنیک پنجابی ہے ۔ پنج دریانواں دی مقدس دھرتی اتے کسے غیرپنجابی دا کوئی وجود نہیں ۔ جیہڑا پنجاب وچ خوش نہیں او پنجاب چھڈ دیوے ۔ پنجاب دی قومی وحدت ،سالمیت ،سرحداں ، پنجابی زبان تے رہتل دی راکھی ہر پنجابی دا قومی فرض ہے” ۔“پنجابی بھی آج آگے سے گنڈاسا اٹھا لیں ,اپنے پنجاب کی خبر سار لیں تو پھر کس کی مجال جو پنجاب کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھے۔

گمشدہ دریائے ہاکڑہ (بہاولپور)چولستان کےدامن میں زیرزمین دفن 7ہزارسال قدیم پنجابی صنعتی شہر اور تین گمشدہ دریاؤں ہاکڑہ , گھاگھرہ , سرسوتی کے مالک ,وارث اور راکھے پنجابی ہیں!

مقصد یہ ہے کہ پنجابی کاز اور پنجابی تحریک سے جُڑے سب سے سنئیر ترین پنجابی قوم پرست کی شہرت اور نیک نامی خراب کرکے نئی پنجابی نسل کو پنجاب اور پنجابی تحریک سے متنفر کیا جائے تاکہ کوئی پنجابی کا نام تک نہ لے ۔باالفاظ دیگر کہ فیک آئی ڈیز کے ذریعے کہوٹ کی کردارکشی کرنیوالے اس کے بارے جھوٹ اور انفارمیشن پھیلانے والے بدبودار،بدنسل،بدذات ، بدزبان ،بدتہذیب اور جھوٹے پنجابیوں کا مشن یہ ہے کہ جو بھی پنجابی سیوا کرے اس کی پنجابی سیوا کو گالی بنا کر پنجابی کاز اور پنجابی تحریک کو ہی گالی بنا دیا جائے تاکہ کوئی اس طرف کا رخ ہی نہ کرے یہ پنجابی تحریک کو گالیوں اور ناکام بنانے کی گہری اور گھناونی سازش ہے یقینی طور پر جو بھی اس کے پیچھے ہے وہ کہوٹ کا نہیں پنجاب اورپنجابی تحریک کا دشمن ہے ۔ شدھ پنجابی قوم پرستوں کافرض ہے کہ او ان فیک آئی ڈیز کو بے نقاب کریں ورنہ ساری زندگی پنجابی کاز کے لئے وقف کرنیوالوں کو گالیاں دینے پنجابی تحریک کو تباہ کرکے چھوڑیں گے ۔ ان کا انجام عبرتناک ہونا چاہئے۔

ایس لئی “پنجابی کاز ساڈے لئی ساڈی اپنی ماں ورگا مقدس ہے ۔ اسیں پنجاب تے پنجابی کاز لئی کم تے سیوا عبادت سمجھ کے کردے ہاں ۔ اساں اپنی ساری ساری حیاتی پنجابی تے پنجاب دے ذکر،فکر ،سیوا تے جدوجہد وچ وچ گذاری ۔ ساڈا خواب ہے کہ انشااللہ اک دن دنیا اُتے پنجاب تے پنجابی دا راج ہونا پنجابی کاز(پنجاب،پنجابی تے پنجابیت) شُدھ پنجابیاں لئی ساڈی اپنی ماں ورگا مقدس ہے ۔اہدے نال کوئی غداری کرے ،دھوکا کرے۔ اہنوں ذاتی مفاد لئی ورتن دی جرائت یا جرم کرے.اوس غدار لئی کوئی معافی نہیں۔

نظیر کہوٹ کے پنجاب دشمن مخالف سن لیں نظیر کہوٹ پنجاب ہے اور پنجاب نطیر کہوٹ ہے۔تقسیم پنجاب کے بعد بیسویں اور اکیسوٰی صدی کے پنجاب کی کہانی نظیر کہوٹ سے شروع ہوتی ہے اور انشااللہ نظیر کہوٹ پر ہی ختم ہو گی ۔تمام مخالف مونہہ کی کھائیں گے۔پنجابی قوم پرست تحریک اور پنجابی قوم پرستی کی تحریک کا بانی نظیر کہوٹ ہے ۔ کوئی مانے نہ مانے فیصلہ تاریخ کرے گی۔“بیسویں تے اکیسویں صدی دے پنجاب ,پنجابی قوم پرست تحریک دی کہانی نظیر کہوٹ توں شروع ہوندی اےتے
اللہ دے حکم نال نظیر کہوٹ اتے ہی مکنی اے ’’

میرا یمان ہے کہ پنجاب سات ہزار سال سے ایک ناقابل تقسیم لسانی،ثقافتی، انتظامی،جغرافئیائی ،قومی وحدت اور اکائی ہے ۔جس پر کوئی غیرت مند پنجابی کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتا۔پنجاب کی تقسیم روکنے کی غرض سے پنجاب بچاو تحریک کے چیف آرگنائیزر کی حیثیت سے تحریک پورے پنجاب میں منظم کرنے کی مہم میں نے اس وقت شروع کر رکھی ہے۔اور پنجاب میں پنجابی زبان کو بطور تعلیمی ،سرکاری ،عدالتی ،پارلیمانی اور میڈیا کی زبان بنانے کی پنجابی زبان تحریک یا پنجابی لینگوئج موومنٹ میں نے پورے پنجاب میں اور قومی سطح پر منظم کرنے کی تحریک شروع کر رکھی ۔

اللہ دے حکم نال مینوں اللہ دی ذات اُتے پکا یقین ہے کہ میں کامیاب ہونا ،پنجاب بچاو تحریک نے تے پنجابی زبان تحریک نے کامیاب ہونا۔میں ہمیشہ اللہ کولوں دعا مگنداں کہ “یا اللہ پنجاب دی سالیمت تے قومی وحدت دا توں ہی ضامن تے راکھا ہیں ۔پنجاب نوں ونڈ تقسیم درتقسیم کرکے ختم کرن دی ہر سازش نوں مینوں ناکام بناون دی ہمت ،حوصلہ ،فکر,طاقت تے حیاتی دے ۔آمین”

ماں بولی دھرتی ماں رہتل قوم اپنی نال جوکردا پیار نہیں
سب کجھ ہو سکدا پر او غدار کسے دا یار نہیں وفادارنہیں
۔پنجابی زبان زندہ باد ، پنجاب پائندہ باد !

(پنجابی تحریک کے تاریخی ریکارڈ کی درستگی کے لئے میری یہ تحریر ناگزیر تھی ۔ورنہ پنجابی تحریک کی تاریخ لکھنے والے بدنیتی کے تحت اسے مسخ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے )۔
نظیر کہوٹ
چیف آرگنائیز پنجاب بچاو تحریک
موڈھی پنجابی زبان تحریک
موڈھی پنجابی کلچرل ڈے
موڈھی پنجابی لوک سیوا سندھ