پنجابی زبان کی بقا اور پنجاب کی سالمیت کی حفاظت میرے نزدیک پنجابیوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔صورتحال اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے جس قدر کہ سامنے دکھائی دیتی ہے۔مجھے یاد ہے پرائمری میں ہمارے گائوں کے سکول میں کلاس میں غلط اردو پڑھنے پر ماسٹر جی مجھے شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ایک بار غلط اردو املا لکھنے پرمجھے مرغا بنا کر لکڑی کی تختی انہوں نے میری کمر پر ہی توڑ ڈالی۔۔میری ماں کئی دن تک گرم کپڑے سے میری سوجی ہوئی کمر پر ٹکور کرتی مونہہ دوسری طرف پھیرے اپنےآنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہی تھی۔
پنجاب کے ایک دور افتادہ اور انتہائی پسماندہ گائوں میں واقع یہ اردو میڈیم سکول جہاں استاد اردو،عربی بھی پنجابی میں پڑھاتے تھے۔ مگرگھر میں ماں باپ بہن بھائی ،بزرگ اور پورا گائوں پنجابی بولتا تھا۔جہلم دریا کے کنارے سرگودھا کے ایک گاوں میں واقع یہ اردو میڈیم پرائمری سکول پور ے پنجاب کی تاریخ ،پنجابی زبان و ادب،ہیروز ،کلچر،رہتل ،وسیب اور صوفی ورثہ کی مکمل نفی کرتا تھا۔گھر میں ،دُلا اوربلھا کا ذکر ہوتا جب کہ سکول ان کی نفی کرتے ہوئے سر سید ،غالب ,اقبال اور گنگا جمنی تہیزب کا درس دیتا. انہیں گلوری فائی کرتا۔
گریڈ 6 میں جب رسالپور میں ہائی سکول میں داخلہ لیا تو خَسرہ کو خُسرہ پڑھنے پر پوری کلاس کلاس ٹیچر سمیت مجھ پر دیر تک ہنستی رہی تھی۔کلاس میں میرے کئی پشتون کلاس فیلوزنے مجھے مشورہ دیا کہ کیوں کہ تمہیں اردو نہیں آتی اس لئے بہتر ہے کہ اپنی بے عزتی کروانے کی بجائے کلاس میں حاموش رہا کرو۔لیکن جب 1969 میں سندھ پہنچا گورنمنٹ ہائی سکول بدین میں گریڈ 7 میں داخلہ لیا تو میری پنجابی نما اردو کو سن کر میرے سندھی کلاس فیلو مجھے کہتے”تم پنجابی ہوہندوستانی مہاجر تو نہیں ہو۔دوسروں کی زبان بول کر اپنی زبان پر ظلم کیوں کرتے۔تم پنجابی ہو ہی ظالم ۔ اپنی زبان کو بھی نہیں بخشتے ہو تم لوگ۔۔کیا تمہاری اپنی زبان نہیں ہے۔تم اردو کیوں بولتے ہو۔پنجابی کیوں نہیں بولتے۔اگر تم سندھی نہیں بول سکتے ہو تو ہم سے پنجابی میں بات کیا کرو۔ہم پنجابی سمجھتے ہیں”۔.
وہ دن اور وہ الفاظ مجھے کبھی بھولے اور نا مرتے دم تک بھولیں گے۔کیوں کہ انہوں نے میری زندگی میری لسانی فکر کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے متئین کر کے مجھے کنفیوژن اور جہالت سے نکال لیا۔میرے سندھی دوست شاہ لطیف اور سچل سرمست کا کلام اورشیخ ایاز کی سندھی نطمیں اپنے ہاتھوں سے لکھ کر کلاس روم میں میرے ڈیسک پر میرے سامنے رکھ دیتے ۔ان کا ملطب سمجھاتے۔اور اسی پر بس نا کرتے بلھے شاہ کا کلام سناکر مجھے حیران کرتے رہتے.
میں اپنے سکول اور کالج میں پنجابی اور مہاجر لڑکوں میں واحد پنجابی لڑکا تھا جو سندھی لڑکوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ببانگ دہل بدین ہائی سکول،کالج اور بدین شہرکی سڑکوں اورسائیں جی ایم سید کے بدین کے ریلوے سٹیشن پر ہونیوالے جلسوں میں جئے سندھ کے نعرے لگاتا تھا۔اور پنجابی اور مہاجر لڑکوں سے پٹتا تھا.یہ کہانی بدین کے اس ہائی سکول سے ہی شروع ہوئی تھی مگر وہاں ختم نہیں ہوئی۔ ہائی سکول بدین کی عمارت کی پہلی منزل پر ہی بدین کا پہلا کالج قائم کیا گیا۔کالج کے فرسٹ ائیر کی پہلی کلاس کا میں پہلا سٹوڈنٹ تھا.اور کالج کی ڈرامیٹک سوسائٹی اور ادبی تنظیم کا پہلا سیکرٹری بھی۔
سندھ آکر دنیا ہی بدل گئی پنجاب میں مجھے بتایا جاتا میری زبان اردو ہے۔سندھ میں آکر ہی پتا چلا کہ نہیں میری زبان اردو نہیں. پنجابی ہے۔اسلام،پاکستان اور ہماری قومی زبان کی چھری سے اپنی ما بولی کا گلا کاٹتے چوری اور سینہ زوری کا مظاہرہ کرتے , لسانی غلامی میں ذہنی توازن کھو چکے اردو میڈیم پڑھے لکھے مگر اپنی مادری زبان میں ان پڑھ, احمق اور جاہل پنجابی ڈنگروں سے جب بھی جہان بھی واسطہ پڑا انہیں اپنی مادری زبان پنجابی کے خلاف اظہار نفرت کرتے زہر اگلتے ہی پایا.کیوں کہ انہیں اس ہتھکنڈے سے پنجابیوں کو غلام بنا کر رکھنے ،پنجاب کو ،پاکستان کو دل کھول کر لوٹنے ,اپنے گھر بھرنے اور مال بنانے ,اپنی اور اپنی نالائق اولادوں کی حاکمیت نسل در نسل قائم اور دائم رکھنے کاا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے۔ابھی بھی غلط تلفظ کے ساتھ اردو بول کربے عزت ہونے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہوں.
مجھے تجربہ ہو چکا کہ لاہور سے شائع ہنیوالے کسی اردو اخبار میں پنجاب اور پنجابی زبان کے حقوق کی حمائت میں اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف بات چھپنا ایک جرم ہے۔اردو ٹی وی چینلوں پر ہر شام کسی نا کسی ٹاک شو میں نام نہاد سرائیکی صوبہ اور جعل سازی کے ذریعے ساٹھ سال پہلےگھڑی گئی سرائیکی قومیت کے احساس محرومی اور پسماندگی کی آڑ میں پنجاب کی تقسیم کا مجرا کرایا جاتا ہے۔جس میں مفاد پرست اور ان کے پالتوپنجاب کے خلاف نفرت کا پرچار کرنے, پنجابیوں کو گالیاں دینے اور دلوانے کے کاخاص پربندھ کرتے ہیں۔عرصہ دراز سے اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نام نہاد سرائیکی بیلٹ،سرائیکی صوبے اور نام نہاد سرائیکوں (جو کہ دراصل پنجابی ہیں)کے احساس محرومی کی آڑ میں پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف بلا روک ٹوک جاری منظم, شرمناک اور نفرت انگیز مہم کسی طرح رکنے میں نہیں آ رہی۔کیوں کہ اس کے پیچھے پنجاب کو ختم کرنے,پنجاب کواردوائیز کرنے،پنجابیوں کی زبان بدل کراردو کرنے,کراچی کو الگ صوبہ بنانے ,اسے پاکستان سے الگ کرنے کا سازشیوں اور سامراجی گماشتوں کا ذہن کام کر رہا ہے.پاکستان جن کی کالونی ہے۔اور اس سامراجی ایجنڈے کی تکمیل پنجاب کی تقسیم کے بغیر ممکن نہیں۔
جس دن سندھ میں اردو لسانی فساد شروع ہوا۔مجھے حیرت ہوئی جب سندھی اپنی مادری زبان کے حق کے لئے سر پر کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل پڑے۔پھر لسانی مسئلے ہی کی بنیاد سے شروع ہونے والی بنگالی زبان تحریک کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹتے دیکھا۔فکری ارتقا اور دھرتی ماں سے جڑنے کےارتقائی عمل کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔رہی سہی کسر کراچی پہنچا توایم کیو ایم کی اندھی پنجاب اور پنجابی دشمنی اور ان کے پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبے کے قیام کے حمائت نے پوری کردی.مجھے حیرت ہوتی تھی اس بات پر کہ یہ لوگ ہندوستان سے آئے ہیں ہجرت کر کے۔ان کا پنجاب سے دور دور کا تعلق نہیں۔یہ ہندوستانی ہیں ۔اور یہ ہیں کون پنجاب کی ایک اور تقسیم کی بات کرنے والے۔ یہ پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبہ کے قیام کے لئے کیوں مرے جا رہے ہیں۔ان کا پنجاب کی تقسیم سے کیا مفاد وابستہ ہے۔اس سوال کا جواب بعد میں سندھ کی تقسیم, مہاجر صوبے کے مطالبے کراچی کی پاکستان سے علیحدگی کے نعرے اپنے کانوں سے سن کر اور آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ میں آیا۔
پنجابی لوک سیوا سندھ اور پنجابی سپریم کونسل کا سیکرٹری جنرل بھی کراچی میں ہی بنا۔ کراچی سے ہی پہلا اردو،پنجابی اور انگریزی ماہنامہ جینئیس بھی بحیثیت ایڈیٹر اور پبلشر میں نے ہی نکالا۔ پاکستان میں پنجابی زبان کے سیاسی،آئینی، جمہوری حقوق کے حصول کی غرض سے سیاسی تحریک “پنجابی زبان تحریک” بھی میں نے ہی قائم کی۔سوشل میڈیا پر پنجابی تحریک بھی میں نے ہی شروع کی۔. مال روڈ پر پنجابی کےحق میں ڈھول اور بھنگڑے کے ساتھ جلوس نکالنے کی ریت بھی پہلی بار میں نے ہی ڈالی.پنجابی کلچر ڈے اور پگ دیہاڑ تیرہ اپریل کو منانے کاآغاز بھی پنجاب میں پہلئ بار میں نے ہی کیا۔.باقی سب تاریخ ہے۔
ساری دنیا گھومتا ہوں.۔دنیا بھر میں پنجابی جہاں بھی اردو کی محفلیں سجاتے ہیں ان میں جانے سے گریز کرتا ہوں۔ہاں مگر اردو بولنے والے جہاں بلائیں سارے کام چھوڑ کر ان کی محفل میں شریک ہونے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ ۔اور اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ دنیا کی تمام زبانیں محبت کی انسانیت کی زبانیں ہیں۔اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر زبان سے پیار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔شاہ لطیف سے اور کچھ سیکھا نا سیکھا مگر یہ ضرور سیکھا .
جو تاریخ پنجاب اور پنجابی زبان کی میں نے پڑھی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ پنجاب ہزاروں سال سے ایک ناقابلِ تقسیم لسانی،جغرافیائی،ثقافتی،انتظامی،تاریخی اور قومی وحدت ہے پنجابی زبان کے بتیس لہجے مل کریہ شاہ حسین کی لکھی جانیوالی پنجابی کی شکل میں ایک معیاری اور واحد زبان بنتی ہے۔عظیم پنجابی صوفی شاعروں بابا فرید،بابا گرو نانک،شاہ حسین،بلھے شاہ،وارث شاہ،سلطان باہو،میاں محمد بخش،اور خواجہ غلام فرید کی پنجابی کو دنیا کا ہر پنجابی اور صادق آباد سے لے کر کشمیر چین تک اور پشاور سے لے کر جمنا تک پھیلا ہوا تقسیم ہند سے قبل کا گریٹر پنجاب اور واہگا کے دونوں جانب پھیلا ہوا وہی تقسیم شدہ پنجاب بخوبی سمجھتا ہے.
مجھ سمیت ہر باشعور پنجابی اس ہولناک حقیقت سے آگاہ ہے کہ لاہور پنجابی زبان کا قبرستان,باقی کا پنجاب ما بولی کا قتل گڑھ بن چکا ہے۔پنجاب اردوائیز ہو چکا۔پنجابی اردو بولنے والے ہندوستانی بن چکے۔قریب پونے دو سو سال سے پنجاب میں جاری ریاستی لسانی دہشت گردی اور نسل کشی کے نتیجے میں پنجاب کی زبان بدل کر اردو کر دی گئی۔اور پنجاب میں ماں بولی کے اس قتلام پر, تاریخ انسانی کی اس سب سے بڑی لسانی دہشت گردی اورناقابل معافی جرم پر کہ جس کی کم سے کم سزا موت ہے قبرستان کی سی خاموشی ہے۔مگر میں خاموش نہیں رہوں گا۔ہر گز نہیں۔کہ میں حق پر ہوں۔ مایوس بلکل نہیں ہوں۔مجھے معلوم ہےپنجاب میں پنجابیوں کی مادری زبان کے غصب شدہ حق کا ایٹم بم پھٹنے کو ہے۔
مجھے معلوم ہے ایک ریاست اپنی پوری طاقت سے پنجابی زبان کا وجود مٹانے پنجاب کی زبان بدلنے کے لئے یکسوہے۔پنجاب کو تقسیم درتقسیم کے غیر فطری عمل کے ذریعے ختم کرنے کے درپے ہے۔مگر معلوم نہیں مجھے کیوں اس بات کا یقین ہے کہ بالآخر پنجاب میں مادری زبان کے حق کے لئے , پنجابی زبان کی بقا اور پنجاب کی سالمیت کی حفاظت کے لئے بنگالی زبان تحریک سے ذیادہ بڑی اور طاقتور تحریک اٹھے گی۔
زبانوں کا ریوائل یا احیا ضرور ہوتا ہے، ہیبریو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔اوردیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ اور ارادہ یہی ہے کہ دنیا الٹ کر رکھ دیں گے۔تاریخ کے جبر کا پہیہ الٹا گھما کر رکھ دیں گے یا پھر اسے سرے سے توڑ کر ہی پرزہ پرزہ کرکے ہی چھوڑیں گے۔کچھ نا کچھ ضرور ہوکر رہیگا۔تبدیلی اور وہ بھی قومی تبدیلی ۔اس کا راستیہ کوئی نہیں روک سکتا۔ تبدیلی خواہ ایک خونی ثقافتی انقلاب کی صورت میں ہی کیوں نا آئے۔سودا مہنگا نہیں۔پنجاب کی پنجابیوں کی مادری زبان صرف اور صرف پنجابی ہے۔اور یہ پنجاب کا ،پنجابیوں کا فطری،آئینی،قانونی اور پیدائشی حق ہے کہ ہماری مادری زبان پنجاب کی لازمی تعلیم،سرکاری، دفتری،عدالتی،پارلیمانی،تجارتی اور میڈیا کی زبان صد فیصد پنجابی ہو۔مگراکثریتی پنجاب کا،پنجابیون کا یہ حق ریاست نےڈیڑھ سو سال سے جبری غصب کر رکھا ہے۔اور پنجاب کو اس کی زبان لوٹانے سے یہ ریاست انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے صاف انکاری ہے۔تو پھر ردعمل بھی فطری بات ہے۔
پاکستان کے لسانی زندان کہ بدقسمتی سے جس کا نام پنجاب ہے میں اردو کے قیدی تیرہ کروڑ پنجابیوں کی لسان تراشی, نسل کشی پنجاب کی زبان بدلنے کا مکروہ اور غیر فطری عمل مجرمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے ستر سال سے ریاستی نگرانی میں بلاروک ٹوک انتہائی سائنٹفک انداز میں جاری ہے۔ پنجاب پر ڈیڈھ سو سال سے مسلط سامراجی گماشتے, پنجاب کولوٹ کر کھا جانیوالا اینٹی پنجاب, اینٹی پنجابی بدمعاش پنجابی استحصالی حاکم ٹولہ, قومی مجرموں کا یہ ٹولہ پنجاب میں ہی ایک دن مثال بنا دیا جائیگا۔
صدیوں سے لسانی،معاشی ثقافتی زنجیروں میں جکڑی پنجابی اکثریت کوآزادی اور خاموش پنجاب کو اس کی آواز اور اپنی ما بولی ضرور واپس ملے گی۔صدیوں کے اندھیروں میں گمشدہ پنجاب کو ہم ڈھونڈ کر ضرور واپس لائیں گے۔ بلھے شاہ کے تخت لہور پر،مسکین پنجاب پر قابض, صدیوں سے پنجاب کو غلام بنا کر رکھنے والے دونمبری پنجابی حاکموں کو عبرت کا نشان بنا کر ہی چھوڑیں گے۔پنجاب کو پنجابیالائیز کرکے ہی چھوڑیں گے۔ جھوٹ پر مبنی بدنیتی کے تحت پنجاب کی لکھی تاریخ کی کتابوں کو ہم جلا کر راکھ کریں گے۔.کوئی مرے یا جئے،رہے نا رہے،پنجاب اور پنجابی کا،پنجاب کے لوگوں کا,اپنا پیدائشی، فطری،جمہوری، آئینی،قانونی حق لئے بغیر ٹلیں گے نہیں۔
میرا ایمان ہے کہ پنجاب کواس کی مادری زبان ضرور واپس ملے گی۔پرامن تحریک سے یا پھر مسلح جدوجہد سے ۔اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کریگا۔مگر ہم چند پنجابی جنہیں اپنی مادری زبان کی بقا کی,اور دھرتی ماں کی سالمیت اور وحدت کی فکر ہے. ہم چند سر پھرے فیصلہ کر چکے کہ ہم اپنی دھرتی ماں اپنی مادری زبان کوقبضہ گیروں،سامراجی گماشتوں،پنجاب فروشوں،منافقوں،لسانی درندوں کے ہاتھوں بے یارو مددگارہوکرہر گزہر گز مرنے نا دیں گے۔ایں خیال است محال است۔میں پیچھے ہٹنے والا نہیںْ ہوں۔
دشمنا ہور کوئی گل نہیں
چپ رہن دا ایہ پل نہیں
جان جائے غم نہیں
توں نہیں یا میں نہیں
دوجا ہن کوئی راہ نہیں
پنجاب نہیں تے ککھ نہیں
تہاڈیاں محبتاں،دعانواں تے حمائت دا غرض وند ,پنجاب تے پنجابی دی چنگی بھلک دا ریجھوان
نذیر کہوٹ