ٹیکسلا سے موئن جو دڑواور موئن جو دڑو سے ہڑپا تک‘‘ایک پنجابی قوم پرست کی اپنی جڑوں ،اپنی گمشدہ قومی شناخت کی تلاش کی نصف صدی پر محیط جدو جہد کی مختصر سرگذشت
(صدیوں کے اندھیروں میں گم ہو چکےاپنےپنجاب,سپت سندھو, پنچاندا ،,اپنی دھرتی ماں اپنے پرکھوں کے قدیم وطن پنجاب کو اپنی گمشدہ قومی میراث اور شناخت کو ڈھونڈنےکےمقدس مشن پرنکلےمخلص پنجابیوں کے لئےنظیر کہوٹ کی یہ تحریر خاص ہے.)
نصف صدی پہلے میری پنجاب کہانی سندھ کے شہر بدین سے شروع ہوئی. موئن جودڑو سے ہوتی ہوئی ہڑپا تک پہچنے والی میری اس پنجاب کہانی کا انت پنجاب میں ہوگا۔موت کی دھمکیاں نا دو مجھے .میں گیا تو سب ساتھ لے کر جاونگا۔انشااللہ تمہیں ڈبو کر جاونگا۔پنجاب سے تمہارا نام و نشان تک مٹا کر جاونگا۔سن لو اکیسویں صدی پنجاب اور پنجابیوں کی ہے.
میں نے غلط کیا کیا ہے اور غلط کیا کہا ہے جو تمہیں آگ لگی ہے ۔تم نے کیا سمجھا ہوا تھا کہ ایک سو پچھتر سال میں پنجاب سے کبھی کوئی نہیں بولا تو پنجاب کے ساتھ جو چاہو تم کرگذرو کبھی بھی کوئی نا بولیگا۔مگر تمہارے سارے اندازے غلط ثابت ہوا۔کوئی بول رہا تھا تیس سال سے مگر اللہ نے اسے تمہاری خونی آنکھ سے بچائے رکھا اور وہ اپنا کام کر گیا۔آج پنجاب میں نعرہ لگ چکا۔کوئی مرے یا جیے پنجاب کی تقسیم منظور نہیں ،جو پنجاب میں خوش نہیں پنجاب چھوڑ دےپنجاب کی معلوم تاریخ میں کبھی کسی پنجابی نے یہ نا کہا کہ ’’میرا جینا مرنا پنجاب لئی اے ‘‘ کبھی کسی کی زبان سے یہ نا نکلا ’’پنجاب اول ،پنجاب آخر‘‘ ایہ سب گلاں اللہ دے حکم نال میرے مونہوں نکلیا پہلی وار۔”موت منظور پر پنجاب دی ونڈ منطور نہیں ” ۔”پنجاب وچ اردو منظور نہیں “۔ پنجاب پنجابی دی دھرتی ماں اے ۔”پنجند اتے پناہگیراں دا قبضہ منظور نہیں “۔’’نیلی اجرک والا پناہگیر اے پنجاب دا دشمن اے ،بدنیت اے ،پنجند اتے قبضہ کرنا چاہندا‘‘۔پنجاب دی ونڈ دیاں قرارداداں پاس کرن والی تے اردو نوں پنجاب دی زبان بناون والی تے پنجاب زبان دا جماندرو حق دین توں ستر سال توں جان بجھ کے ریاستی غنڈہ گردی کردیاں انکاری پنجاب اسمبلی نوں اساں ڈھائے بنا پچھاں نہیں ہٹنا۔ ایہ گلاں تساں کدی نا سنیاں پنجاب دی تاریخ وچ پر ایہ ہن ہوون چلیاں نے ۔
جس پاکستان کے لئے دس لاکھ پنجابی قتل ہوئے پنجاب دو لخت ہوا اسی پنجاب پر تم نے سرائیکی کا فتنا پیدا کرکے مسلط کردیا. سرائیکیوں نے پنجابی مسلمانوں کا باپ رنجیت سنگھ کو بنا دیا۔جبکہ سرائیکی اپنا پنجابی باپ بدل کر ایک افغانی نواب مظفر خان صدوزئی ابدالی کو بنا چکے ہیں ۔سرائیکیوں نے زبان تہذیب، اور دھرتی چوری کی اس کا نام پنجاب زبانی کا ایک لفظ’’وسیب‘‘چرا کر رکھا۔لال اجرک سندھیوں کی چوری کرکے اس کا رنگ نیلا کیا اور اس کا نام رکھا سجرک۔اردو اخبار اور ٹی وی چینل سرائیکی کی آڑ میں دن رات پنجاب کے خلاف نفرت کی مہم چلا کر پنجاب اور پنجابیوں کو گالی دیتے ہیں ۔مگر پنجاب سے کوئی نہیں بولتا۔یہ پنجاب ہے یا کوئی تماشا۔یا بے زبان جانور۔
ایم کیوایم اور اردو والے سرائیکی صوبہ بنانے کے لئے پنجاب اسمبلی کے گھیراو کی دھمکیاں دیتے اور پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبہ کے قیام پر کراچی میں شاندار بھرپور جشن منانے کا اعلان کرتے ہیں ۔سرائیکی انٹرنیشنل کا ہیڈ کوارٹر دہلی میں ہے ۔دو آرمی چیف جنرل ضیا اور جنرل مشرف براہ راست سرائیکی کی حمایت اور پنجاب کی تقسیم کی سازش میں ملوث رہے۔پیپلز پارٹی عرصہ دراز سے سرائیکی کارڈ سے پنجاب کی پیٹھ میں سرائیکی کا زہریلا چھرا پلٹ پلٹ کر گھونپ رہی ہے ۔ابھی بلاول نے سرائیکی دیش اور سندھو دیش بنانے کی دھمکی دی ہے ۔مراد شاہ کہتا ہے سندھ کو تقسیم کرکے دکھاو۔بلاول پنجاب میں نعرے لگاتا ہے گھنسوں گھنسوں صوبہ گھنسوں کراچی میں دھمکیاں دیتا ہے مرسوں مرسوں سندھ نا ڈیسوں۔ مگر پنجابی آدھا پنجاب پلیٹ میں رکھ کر دشمن پناہگیر سرائیکی کو پیش کرتا ہے ۔بزدلوں کا ،گیدڑوں کا اڈا ہے پنجاب اسمبلی ،پنجاب فروشوں کا ہیڈ کوارٹر ہے پنجاب اسمبلی ۔
پنجابی تحریک کو جو اخباری کالموں اور پنجابی رسالوں تک چند افراد تک محدود تھی اسے میں پنجاب اور پنجابی کے سیاسی حقوق کی تحریک بنا کر کراچی ،سندھ،لہور اور پنجاب کی سڑکوں پر لے آیا۔لہور میں پنجاب کی سالمیت کے لیئے سندھ سے آکر سالیمت پنجاب کانفرنس دو ہزار نو میں پہلی پنجابی قومی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے میں نے منعقد کی ۔کسی کو پنجاب میں احساس تک نا تھا کہ پنجاب ہاتھ سے جا رہا ہے ۔مجھے آج بھی یہ معلوم ہے کہ پنجاب اور پنجابی زبان پنجابیوں کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ان کا مسئلہ پیداگیری اور پیٹ پرستی ہے ۔
ریاست پنجاب کے خلاف کمال غنڈہ گردی پہ اتری ہے ،پنجابی زبان کا حق دینے سے ستر سال سے انکاری ہے مگر پنجاب پر ساٹھ ستر سال سے اردو سرائیکی مسلط کرکے پنجابی کی نسلی و لسانی نسل کشی اور پنجابیوں کی زبان بدل کر اردو کرنے میں لگی ہے ۔ریاست یہیں بس نہیں کر رہی ،پنجاب اسمبلی،قومی اسمبلی اور سینیٹ نے پنجاب کو تقسیم کرنے اور جنوبی پنجاب صوبہ کی آڑ میں سرائیکی صوبہ بنانے کی قراردادیں منظور کر رکھی ہیں ۔اہل پنجاب وطن فروشی اور غداری کی تمام تر حدوود پار کرتے ہوئے مینار پاکستان پر عمران خان اور گدھےکی آواز والے گلوکار عطااللہ عیسی خیلوی پٹھان کے پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبہ کو تحریک انصاف کے انتخابی ایجنڈے میں شامل کرنے پر تالیاں بجاتے ہیں۔ان میں اکثریت لہوریوں کی تھی۔
جس پاکستان کو اللہ نے بنایا اسی پاکستان کو بنگالی اپنی زبان بچانے کے لئے اردو بنگالی فساد ہونے پر اللہ کے حکم سے توڑ ڈالتے ہیں ۔ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے کا نعرہ لگا کر سندھیوں کو چیلنج کرتے ہیں تو بہادر سندھیوں نے چیلنج قبول کیا،سندھی اردو فساد ہوا،سندھی زبان بچ گئی ۔مگر نتیجہ عجیب و غریب نکلا بیج میں رگڑے اندرون سندھ کے پنجابی گئے ۔پچھتر ہزار پنجابی سندھ سے نکالے گئے ۔پنجابی عورتیں اغوا ہوئیں ۔ ہزار کے قریب پنجابی قتل کر دئے گئے ۔پچاس ہزار پنجابی ایک سال تک رحیم یار خان اور ڈیرہ ٖغازیخان کے کیمپوں میں پڑ ے رہے کسی نے نا پوچھا تم کون ہو۔سب خود ہی کہیں چلے گئے ۔بلوچستان میں پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ،ایک لاکھ سے ذیادہ پنجابی بلوچستان سے نکالے گئے ۔مگر لہوریئے اور پنجاب چپ تھا۔
کراچی میں ایم کیو ایم نے دل کھول کر پنجابیوں کے خلاف دہشت گردی کی۔پنجابیوں کی لاشیں نامعلوم افراد،شارپ شوٹرز اور ٹارگٹ کلزر نے گرائیں مگر بارہ کروڑ پنجابی اکثریت بھیڑ بکریوں گیدڑوں کی طرح چپ رہی ۔بالکل ایسے ہی جیسے تینوں پنجاب اسمبلی،قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پنجاب کی تقسیم کی قرار دادیں پاس ہونے پر چپ ہے ۔جیسے پنجاب کو نہیں بھارت یا اسرائیل کو چیرا پھاڑا جا رہا ہے ۔کوئی اور غیرت مند قوم ہوتی تو اب تک پنجاب اسمبلی ،قومی اسمبلی اور سنیٹ کو جلا کر راکھ کر چکی ہوتی ،مگر خاطر جمع رکھیئے یہ پنجاب میں رائے احمد کھرل کی قوم نہیں رہتی یہ ایل پنجاب کوئی گیدڑ ہیں جو پتا نہیں پنجاب میں کہاں سے آ گھسے ہیں ۔مگر کراچی کا پنجابی بالکل چپ نہیں تھا۔تاریخ گواہ ہے ۔اٹھ کھڑا ہوا تھا دہشت گردی کے خلاف لڑنے ۔
نصف صدی پہلے جو پنجاب کہانی سندھ کے شہر بدین سے شروع ہوئی اس کا انت پنجاب میں ہوگا۔وہ کہانی آج میں پنجابیوں کو سناتا چلوں۔کہ نظیر کہوٹ کون تھا کیا سے کیا ہوگیا اور یہ سب کیسے ہو گیا۔اس لئے کہ مجھ انداہ ہو چکا ہے پنجاب میں مجھے کیسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے ۔یہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
وہ دور تھا جب ذولفقار علی بھٹو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم تھے ،سندھ میں کم مقبول تھے مگر پنجاب میں ذیادہ ۔اور پنجاب ہی کے لیڈر تھے ۔بدین کے ریلوے سٹیشن کے گراونڈ میں ہی پہلی بار میں نے بھٹو صاحب کو انتخابی جلسے سے پرجوش خطاب کرتے دیکھا اور سنا۔بھٹو صاحب عوام کے محبوب لیڈر تھے ۔اسی گراونڈ میں میں نے جب جی ایم سید 1973 میں بدین کے ریلوے سٹیشن گراونڈ میں جلسے سے خطاب کرنے آئے تو میں بھی یہ جلسہ سننے گیا تھا۔وہیں پہلی بار میں نے سائیں جی ایم سید کو دیکھا اور ان کی باتیں سنیں۔جلسہ گاہ میں کئی ہزار لوگ تھے اور انتہائی خاموشی اور توجہ سے سائیں کی تقریر سن رہے تھے۔سائیں سندھ کا ذکر کرتے تو جئے سندھ کے فلک شگاف نعرے جلسے میں بلند ہوتے ۔
سندھ میرے لئے پراسرار بھی تھا اور ایک حیرت کدہ بھی ۔ میں نے پنجاب میں کبھی جیوے پنجاب کے نعرے نا سنے تھے صرف پاکستان زندہ باد کے نعرے سنتا تھا،میں نے ہی بعد میں پنجابی لوک سیوا،پنجابی زبان اور پنجابی نیشنل کانفرنس میں جیوے پنجاب اور پنجاب زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کئے ۔پائلاک لہور میں پہلی بار پنجاب پنجابی زندہ باد کے نعرے لگائے جو پہلے کبھی کسی سرکاری ادارے میں نا لگائے گئے تھے ۔وہاں اس کا ردعمل جو بعد میں سامنے آیا الگ کہانی ہے ۔
1972 میں جب سندھ کے وزیراعلیٰ ممتازعلی بھٹو تھے تو سندھی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا بل پاس ہوا ، سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی اکثریت تھی جس کی بنا پر بل باآسانی منظور ہوگیامورخہ 5 جولای 1972 کو یہ لسانی بل ایک سرکاری نوٹیفیکیشن کے زریعے مشتہر کردیا گیا تھا سندھی لینگوئج بل پاس ہو نے پر ممتاز بھٹو بہت سے سندھیوں میں ہیرو کے طور پر ابھر آئے تھے اور پی پی پی کے سرکاری اخبار ’ہلال پاکستان‘ نے انہیں ’ڈہیسر‘ ؛یعنی ’دس سروں والا سورما‘ قرار دیا تھا کیونکہ انہوں نے سندھ اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ’ اگر دس سر بھی ہوں تو سندھ پر قربان‘۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو فساد فساد ختم کروانے کے لئے اردو بولنے والوں سے معافی مانگنی اور بل میں ترمیم کا اعلان کرنا پڑا تو بھٹو کو سندھی قوم پرستوں نے ’بزدل‘ کہا تھا۔
سندھ میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ تنظیمیں جماعت اسلامی اور جمیت علمائے پاکستان اور نواب مظفر کی مہاجر پنجابی پٹھان اتحاد جیسی جماعتیں تھیں۔– معروف شاعر رئیس امروہوی نے اسی سلسلے میں روزنامہ جنگ میں اردو کا مرثیہ لکھا ” اردو کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے” .رئیس امروہوی کی یہ نظم جنگ اخبار کی شہ سرخی بنی۔سب سے زیادہ ردعمل شہری علاقوں سے آیا ، مجوزہ لسانی بل کو سیاہ قانون قرار دیا اور صوبے بھر میں احتجاجی ہڑتال کی اپیل کی اس لسانی بل کے خلاف حیدرآباد ،نواب شاہ ،میرپورخاص،سکھر میں بھی مکمل ہڑتال رہی.
اس دوران سندھ یونیورسٹی جام شورو میں طلبا نے سندھی زبان کی حمایت میں مظاہرہ کیا کلاسوں کا بائیکاٹ کیا جلسہ عام منعقد کیا – سندھ یونیورسٹی میں اردوکلاسیں بند کردیں-اردو زبان کی حمایت میں نکلنے والے جلوس پر پولیس نے آنسو گیس پھینکی ، لاٹھی چارج کیا گیا حکومت نے احتجاجی جلوس اور ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے ریاستی مشینری استعمال کی کراچی حیدرآبادمیں خونریزی کے نتیجے میں متعدد افراد جاں بحق ہوے -پرتشدد واقعات رونما ہوے نتیجے میں کراچی و حیدرآباد میں کئی افراد مارے گئے ۔ متعدد شدید زخمی ہوے. ان جلوسوں نے سندھیوں کو مزید بھڑکا دیا اور سندھی اردو لسانی تنازعہ جو اردو بنگالی فساد کے نیتجے میں پاکستان ٹوٹنے کے فوری بعد شروع ہوگیا تھا پاکستان کے وجود کے لئے سوالیہ نشان بن گیا۔سندھی لینگوئج بل پاس ہو نے پر اور اس کے ردعمل میں جنگ اخبار رئیس امروہوی کی نظم اردو کا جنازہ ہے ذرہ دھوم سے نکلے کے نیتجے میں سندھ میں اردو سندھی لسانی فساد پھوٹ پڑا۔اور جس کا بڑا شکار اور نشانہ اندرون سندھ کے پنجابی اور مہاجر بنے.
بدین شہر میں صبح گیارہ بجے 5 جولائی 1972کو جنگ اخبار کی شہ سرخی ۔’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ‘” پر جیسے جیسے سندھیوں کی نظر پڑتی گئی لوگ طیش میں آتے گئے ‘ سارا بدین آگ کی طرح بھڑک اٹھا،آتش فشاں کی طرح پورا سندھ پھٹ پڑا،سندھی ایسے نکلے اپنی زبان بچانے کے لئے جیسےبنگالی اردو کے خلاف نکلے تھے ۔اس وقت میں بدین شہر میں تھا۔بدین ہائی سکول میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ،عصر کے وقت سکول کرکٹ گراونڈ سے کرکٹ کھیل کر نکلا تو سکول کے گیٹ پر نعرے لگاتے بپھرے ہوئے سندھیوں کے ایک ہجوم نے مجھے گھیر لیا۔
’’پنجابی سامراج ڈسے تھو‘‘ ایک سندھی لڑکا جو پورے جوش سے جئے سندھ کے نعرے لگا رہا تھا دور سے اشارہ کرتے ہوئے میری طرف بڑھا۔”اچھو ہن پنجابی سامراج کھیہ شہید کئیوں‘‘
مگر اسی وقت ایک اور لڑکا جس کے ہاتھ میں جئے سندھ کا جھنڈا تھا اس کے سامنے آ گیا۔اور مجھ سے پوچھا۔
“کیر ائیں”(کون ہو)
“پنجابی ہوں”میں نے اردو میں جواب دیا۔
’’ پنجابی سامراج آہے ‘‘۔اسی لڑکے کی بپھری ہوئی آواز دوبارہ آئی۔’’ہیہ شہید تھیندو‘‘
“پنجابی اٴئیں تاں پنجابی میں گالھ چھو نا تھیں کریں۔اسیں بلھے شاہ جی بولی سمجھوں تھاــ”(پنجابی ہو تو پنجابی میں بات کرو۔ہم بلھے شاہ کی زبان سمجھتے ہیں )ایک لڑکا جس کے ہاتھ میں اردو کے خلاف لکھا بڑا سا بینر تھا نے میرا راستہ روک لیا۔میں نے ہاتھ چھڑا کر وہاں سے ہٹنے کی کوشش کی تو اس نے میرا رستہ روک لیا۔یہ دس بارہ سندھی لڑکے تھے جو مجھے گھیرے کھڑے تھے ۔جلوس آگے جا چکا تھا۔میرے ساتھ کے دوسرے لڑکے کہیں غائب ہو چکے تھے۔میں اکیلا ان کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔لگ یہی رہا تھا کہ یہ مجھے مار ڈالیں گے ۔یا سڑک پر گھسیٹیں گے ۔مگر خدا کاشکر۔ادا کیا کہ جان بچ گئی ۔ورنہ اس روز پورے سندھ میں کئی پنجابی شہید کئے گئے۔پنجابیوں کو مہاجر،مکڑ کہہ کر قتل کیا گیا۔
مگر پھر اچانک ہی منظر بدل گیا ایک درازقد سندھی لڑکا سب لڑکوں کو درمیان سے ہٹاتے ہوئے میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔”یہ پہن لو۔ایسا نا ہو کوئی تمہیں مار ڈالے”.اس کے برابر کھڑے ایک سندھی لڑکے نے میرے سر پر سندھی ٹوپی رکھ دی دوسرے نے اپنی اجرک کندھے سے اتار کر مجھے اوڑھا دی۔
’’گھر ہلی ونج‘‘ اہناں سندھیاں وچوں اک پنجابی وچ بولیا۔وہی لڑکا جس نے مجھ اجرک اوڑھائی تھی نرمی سے بولاتھا .
ان کے لیڈر نے جو خود بھی ایک نوعمر لڑکا تھا غالبا اس کا نام عیسی ملاح تھا۔وہ جیئے سندھ کا سرگرم کارکن تھا ۔اسے میں سکول میں اکثر جیئے سندھ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔ ۔بدین آگ میں جل رہا تھا۔شہر میں کچھ نا کچھ ہو رہا تھا۔میں احتجاج کرنیوالے کسے کے قابو میں نا آ رہے تھے ،پورا سندھ سندھی اردو لسانی فساد کی آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا۔اخبار کی ایک سرخی ہزاروں جانیں نگل گئی مگر ایک زبان کو زندگی اور دوسری کو نفرت کا نشانہ بنا گئی.
سکول کے گیٹ سے جلوس نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔اس جلوس میں پیپلز پارٹی ،جئے سندھ،جماعت اسلامی غرض سندھ کی ہر تنظیم اور پارٹی دے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے سندھی جئے سندھ ۔اردو مردہ باد،سندھی زندہ باد،اردو نا کھپے کے نعرے لگا رہتے تھے ۔انتہائی پرجوش،کچھ غضبناک ،کچھ کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں،بندوقیں اور پستول تھے اور کچھ کے ہاتھوں میں لاٹھیاں،ڈندے اور خردم تھے ۔یہ رکنے والے نہیں تھے ۔
میں جلوس کا رستہ کاٹ کر اپنے گھر کی طرف بھاگا میں نے سن لیا تھا وہ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے بدین شہر میں پنجابی اور مہاجر کہاں کہاں کس کس محلے میں رہتے ہیں ۔نہر کے ساتھ اپنے گھر پہنچا تو گلی سندھی عورتوں سے بھری ہوئی تھی۔تیس چالیس سندھی عورتیں اور لڑکیاں میرے گھر کے دروازے کے باہر گلی میں دھرنا دیئے بیٹھی تھیں ۔گنے گنے شائد اٹھ دس گھر تے پنجابیوں کے اس محلے میں سب کے دروازوں پر سندھی عورتیں کھڑی تھیں ،سندھی عورتیں پنجابیوں کےگھروں کے سامنے ان کئ حفاظت کے لئے گلی میں دھرنا دیئے بیٹھی تھیں ۔مجھے سب نے گھر کے اندر جانے کا راستہ دیا اور باہر سے گھر کے دروانے کو کنڈہ لگا دیا۔گھر کے اندر میں میری والدہ اور دونوں چھوٹی بہنیں کے ساتھ اس محلے میں رہنے والے آٹھ دس پنجابی گھرانوں کی ساری پنجابی عورتوں کو بیٹھے دیکھا۔والد صاحب ڈیوٹی پر گئے تھے اور بڑا بھائی دوستوں کے ساتھ کہیں نکلا ہوا تھا والدہ سامنے کرسی پر بیٹھی دروازے کی طرف فکر مندی سے دیکھ رہی تھیں اور ان کی کرسی کی ٹیک سے والد کی دونالی بندوق ٹکی دیکھی۔بجپن میں پہلے بھی کئی بار والدہ کے ہاتھ میں بندوق،برچھا اور ڈانگ دیکھ چکا تھا۔۔پنجابی عورتیں فکر مند تھیں ۔اور تمام پنجاب واپس جانے کی بات کر رہیں تھیں ۔کچھ دن بعد میری والدہ نے بھی فیصلہ سنا دیا۔
’’میں پنجاب واپس جانا اے ‘‘
یوں میرے علاوہ میرے سارے گھر والے سندھ چھوڑ کر پنجاب واپس اپنے شہر سرگودھا چلے گئے اور میں بدین کالج سے گرئجوئیشن کرکے روزی روزگار کی تلاش میں کراچی سدھارا۔
طوفان آیا اور گذر گیا۔۔مگر میری زندگی میں ایک طوفان برپا کر گیا۔سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔’’میں کون ہوں۔میری شناخت کیا ہے ۔میں اردو کیوں بولتا ہوں، پنجابی پنجابی کیوں نہیں بولتے اردو کیوں بولتے ہیں ‘‘مگر ہر سوال کا جواب دور بہت دور لہور تخت لہور اور صدا کی پنجاب دشمن پنجاب اسمبلی کے ایوانوں میں تھا۔جہاں ایک دن میں نے پہنچنا تھا ان تمام سوالوں کے جواب طلب کرنے اور کچھ پرانے حساب کتاب چکانے ۔ سندھی اردو تنازعے میں جو کچھ میرے ساتھ اور پنجابیوں پر گذری میری ہر سوچ،فکراور آنیوالی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل گئی ۔یہ واقعہ تقریبا سینتالیس سال پرانا ہے ،عمر گذر گئی مگر بھولتا نہیں جیسے ابھی کل کی بات ہے کہ میں نے سندھ کو اس کے بعد بھی ہمیشہ محرومی اور مصیبتوں کی آگ میں ہی جلتے دیکھا ہے ۔اور پنجابیوں کو پنجاب کا تماشا بنائے دیکھا ہے ۔
وہ چلے گئے ۔مجھے کوئی نقصان پہچائے بغیر۔مگر میرے لئے ایک نو عمر پنجابی کے لئے جو مطالعہ پاکستان ،اسلام ،اردو قومی زبان کی پنجابیوں کی نعرے بازی کا شکار اور برین واشڈ تھاکے لئے ان گنت سوال چھوڑ گئے ۔سب سے بڑا سوال ایک ہی بار بار ذہن میں اٹھتا تھا۔’’میں کون ہوں پنجابی ہوں یا اردو بولنے والا،مجھے اپنی زبان اور اپنی جنمی دھرتی کے بارے میں کیوں کچھ معلوم نہیں ۔میں دوسرے پنجابیوں کے ساتھ اردو میں کیوں بات کرتا ہوں۔کیا ہماری کوئی زبان نہیں۔ہم پنجاب کے رہنے والے ہیں کون ۔سندھ کے سکولوں میں سندھی پڑھاتے میں مگر پنجابی کے سکولوں میں پنجابی کی بجائے اردو کیوں پڑھاتے ہیں سندھی اپنی زبان سے اتنی محبت کرتے ہیں مگر پنجاب میں تو کوئی پنجابی کا نام تک نہیں لیتا۔ مگر کیوں ؟شناخت کا بحران اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ایسے میں بلھے شاہ دااّکھیا ہی بار بار کانوں میں گونجتا سنائی دیتا۔در کھلا حشر عذات دا برا حال ہویا پنجاب دا ،دُلا بھٹی کی للکار دھرتی کا سینہ چیر کر بلند ہوتی بھناں دلی دے کنگرے بھاجڑ پا دیاں تخت لاہور ساتھ رائے احمد کھرل پنجاب کے میدانوں میں بلند ہوتی سنائی دیتی اساں بھوئیں ،رناں تے گھوڑیاں ونڈ کے کدی نہ دتیاں ۔
شاہ پور جھاوریاں کے قریب دریائے جہلم کے کنارے واقع مگر میرے گاوں چھوٹے سے گاوں ’’ڈھڈیاں شریف‘‘ پر اردو کا نہیں بلھے شاہ ،وارث شاہ ،میاں محمد بخش ،بابا فرید اور خواجہ فرید کا راج تھا۔سکول پہنچتا تو آگے اقبال راستہ روک کر کھڑا ان سب عظیم پنجابی صوفیوں کی نفی کر رہا ہوتا تھا۔
یہاں میرے کہوٹ قبیلے کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہوٹوں کا تعلق جٹ برادری سے ہے ۔کہوٹ بنیادی طور پر خطہ پوٹھوہار کے پنجابی جٹ ہیں ۔ کہوٹ ذیادہ ترچکوال ٹیکسلا ،اور پوٹھوہار ریجن کے دیگر علاقوں میں آباد ہیں ۔ پنڈی کی تحصیل کہوٹہ میرے اباد اجداد کا بسایا شہر ہے ۔ کہوٹ روات کے قلعے میں سلطان سارنگ کے ساتھ شامل ہوکر افغانی حملہ آور شیر شاہ سوری اور افغانی پشتون لشکر کے خلاف ہوکر لڑے۔ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں سارنگ خان اور اس کی سولہ بیٹوں کے شہادت کے بعد سوری نے کہوٹوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ شیرشاہ سوری کے لشکریوں نے کہوٹہ اور دیگر کہوٹ بستیوں کو حملہ کرکے آگ لگا دی ۔ کہوٹوں کا قتل عام کیا ۔کیوں کہ کہوٹ شہنشاہ بابر ار ہمایوں کے اتحادی تھے ۔جب بابر نے دلی فتح کی تو کہوٹوں کا سردار سعید کہوٹ بابر کے ساتھ دلی شہر میں داخل ہوا۔ شیر شاہ سورئ کے مظالم کا شکار ہوکرکہوٹوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کرکے شاہ پور سرگودھا میں جا کر جہلم دریا کے کنارے اور بھیرہ بھلوال میں جاکر آباد ہوگئی ۔ جہاں انہوں جہلم دریا کے کنارے ایک گاوں ڈھڈیاں کے نام سے اور دوسرا گاوں کہوٹ کے نام سے شاہ پور بھیرہ کے نام سے بسایا ۔
یہ تھا وہ واقعہ جو آج سے سینتالیس سال پہلے 7جولائی 1972 میں میرے ساتھ بدین سندھ میں پیش آیا جب میں پندرہ سولہ سال کا تھا۔اس واقعے نے میری زندگی بدل ڈالی۔مجھے سندھ اپنی مادری زبان اور اپنی دھرتی ماں پنجاب سے عشق محبت کی ایسی گڑھتی لگائی کہ مجھے اب ۔پنجاب اور پنجابی کے علاوہ ،پنجاب کے مسائل سے الگ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپیں رانجھا ہوئی۔یہیں سے سندھ اور سندھیوں کے بارے میں جاننے کا تجسس شروع ہوا۔تو موئجودڑو سے ہڑپا اور ٹیکسلا تک انڈس وادی،سپت سندھو کی اپنی جڑوں تک پہنچے کا رستہ کھلا۔سندھی شاعروں ادیبوں اور قوم پرستوں جن میں شاہ لطیف،شیخ ایاز، جی ایم سید،ساہ عنائت،سچل سرمست،سوبھو گیان چندانی ،موتی پرکاش،ابراہیم جویو، بیکس،مرزا قلیچ بیگ،حیدر بخش جتوئی ،نسیم کھرل ،جمال ابڑو،بیوس،رسول بخش پلیجو،آغا سلیم ،امرجلیل،فہمیدہ حسین کی تحریریں سے متعارف ہوا۔ان میں سائیں جی ایم سید،شیخ ایاز،سوبھو گیانی،ابراہیم جویو،رسول بخش پلیجو,امر جلیل اور چند دیگر سندھی دانشوروں اور قوم پرستوں سے بل المشافہ ملاقاتیں بھی رہیں ۔یہیں سے سندھی قوم پرستی اور ترقی پسند تحریک کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔سندھیوں کی قوم پرستی اور ترقی پسندی میں توازن نے مجھے حیرت ذدہ کر دیا۔جب سندھ کے قومی مفاد کا معاملہ ہو تو سندھی ترقی پسندی کو رکھ کر لات رسید کرتے ہیں ،اور سندھ کے لئے ایک نکے پر متحد ہو جاتے ہیں ۔لیکن جب مشکل وقت گذر جائے تو پھر ترقی پسندی پر دوبارہ مہربان ہو جاتے ہیں ۔
یہی حال اردو بولنے والے ترقی پسندوں کا ہے ۔جب کہ پنجابی ترقی پسندوں کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ,الگ,عبرتنا ک ہے .وہ پنجاب دشمنی،سرائیکیت اور آفاقیت کے گھوڑے پر سوار ہیں ۔۔ملتان میں جب حمید اختر کو سرائیکیوں کی حمائت کرتے دیکھا تو دکھ ہوا۔پنجابی ترقی پسند پنجاب کی تقسیم اور سرائیکی صوبہ زبان اور قومیت کی حمائت کرتا رہا اور پنجاب ان پناہگیروں کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتا رہا۔لہور میں حلقہ ارباب ذوق میں احساس کمتری کے شکار اردو کی لسانی غلامی میں مبتلا بیٹھے اپنی ماں بولی کے قاتلوں پنجابیوں کو بیٹھے دیکھ کر حیرت اور دکھ ہوتا۔انجمن ترقی پسند مصنفین کے ملتان کے سالانہ اجلاس میں سرئیکی پناہگیروں کے آگے پنجاب کے عظیم ترقی پسند دانشور کو مجرموں کی طرح بیٹھے پنجاب کی صفائیاں دیتے دیکھ کر میرا خون کھول رہا تھا۔ مگر خاموش رہ کر پنجاب کے خلاف نام نہاد سرئیکیوں کی نسلی ولسانی منافرت کا مجھے براہ راست پہلے بھی کئی بار مگر کی بار کچھ ذیادہ ہے
قابل نفرت تجربہ ہوا تھا۔مجھے کوئی شک نہیں رہ گیا تھا اس حقیقت تک پہنچنے میں کہ پنجاب کی خاموشی نے پنجاب کو
نسلی ولسانی دہشت گردوں کے آگے مجرم بنا کر ان کے حوصلے بڑھا دیئے ہیں جس کی وجہ سے یہ پنجاب پر چڑھ دوڑے ہیں اور تخت لہور کی گالی پنجاب میں رہ کر ہر پنجابی کو مگر یہ دھڑلے سے دیتے ہیں ۔حیرت تھی مجھے کہ کس طرح جنوبی پنجاب میں موجود سرئیکی پناہگیروں کی ایک حقیر سی اقلیت نے بارہ کروڑ کی خاموش اور بے گناہ پنجابی اکثریت کواردو میڈیا کی حمائت و تعاون سے پنجاب کے خلاف نفرت انگیز پروپگنڈے کے ذریعے آگےلگا رکھا ہے ۔
سوچ،فکر اور نظریات کے ساتھ ساتھ سندھی قوم پرست تحریک کے بارے میں اور اس کو بنیاد فراہم کرنیوالی سندھی ادبی سنگت کے بارے میں جانکاری ملی ۔سوچنے ،سیکھنے اور سمجھنے کی پیاس بڑھتی ہی گئی پیر علی محمد راشدی کی کتاب ’’فریاد سندھ‘‘ پڑھکر کئی راتوں تک سو نا سکا۔۔سوچا کہ کیا پنجاب ایسا ہی ہے جیسا راشدی صاحب نے بیان کیا۔’’فریاد سندھ ‘‘ کو سندھی قوم پرستوں میں الہامی کتاب کا درجہ حاصل ہے ۔اگر یہ کتاب کوئی پنجابی پڑھ لے تو ذہنی توازن کھو بیٹھے کا پھر خود کشی کر لیگا۔سندھی ادبی سنگت سندھی قوم پرست فکر کی سندھ میں ہمیشہ سے روز اول سے بنیاد ہے اس کے مقابلے میں پنجابی ادبی سنگت لہور ایک تماشا ہے کہ جب میں نے ان سے کہا کہ پنجابی ادبی سنگت کو سندھ کی طرح پنجاب کے تعلیمی اداروں میں منظم کرو۔مجھے ممبر شپ کا فارم دو تو انہوں نے مجھے پنجابی ادنی سنگت سے ہی نکال دیا ۔اور فیس بک پر پنجابی ادبی سنگت کے پیچ پر بلاک کردیا یہ پابندی پچھلے دس سال سے لگی ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے ۔
تعلیم مکمل کرکے روزگار کی تلاش میں کراچی منتقل ہوا تو یہاں سب کچھ تھا مگر سندھ اور سندھی نا تھے ۔کراچی مکمل طور پر ایک اردو اکثریت کا شہر تھا جس میں پنجابی ،پٹھان بھی بھاری اکثریت کی حامل اقلیتی لسانی گروہ تھے ۔مگر اس وقت کراچی میں ایم کیو ایم نہیں تھی۔الطاف حسین کا نشتر پارک میں ہونیوالا پہلا جلسہ میں نے جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سنا کہ مزار قائداعظم کے پاس گرومندر پر اس وقت جہاں میری رہایش تھی میرے اردو بولنے والے پڑوسئ لڑکے مجھے گھسیٹ کر ساتھ لے گئے ۔مجھے یاد ہے الطاف حسین نے جب کہا ’’وی سی آر بیچ کر کلاشنکوف خریدو‘‘جلسے میں بہت دیر تک تالیاں بجتی رہیں ۔بارش بھی ہو رہی تھی ۔یہیں پر میں جلسہ چھوڑ کر باہر نکل گیا۔معلوم نہیں مجھے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے کراچی اچانک کچھ بدل گیا ہے ۔کہ اس جلسے کے بعد کراچی میں کبھی کسی نے خیریت کی خبر کبھی نا سنی ۔
ستر یعنی سیونٹیز کی دہائی کا کراچی اایک خوبصورت ،صاف ستھرا،پرامن اور بلاشک روشنیوں کا شہر تھا۔مگر ایم کیو ایم بننے کے بعد یہ شہر آگ،لہو ،لاشوں ،نسلی لسانئ منافرت،دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری کا شکار ہو کر اجڑ گیا تباہ برباد ہو گیا۔
’’سندھی مہاجر بھائی بھائی دھوتی نسوار کہاں سے آئی ‘‘ کا نعرہ لگا تو ردعمل میں پنجابی پختون اتحاد بن گیا۔پھر کراچی میں خون کی وہ ہولی شروع ہوئی جو بیس پچیس سال بعد ہی جا کر ختم ہوئی۔ایم کیوایم جو کچھ کراچی میں پنجابیوں کے ساتھ کر رہی تھی میں اس دیگر لاکھوں پنجابیوں کی طرح اس کا گواہ تھا۔پنجابی پختون اتحاد آپسی اختلافات کی نظر ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔تب دوستوں نے مجبور کرنا شروع کیا ۔صرف تے صرف پنجابیاں دی تنظیم بنایئے،‘‘
یوں کراچی میں آج سے تیس سال پہلے پہلی پنجاب پرست پنجابی سیاسی تنظیم لوک سیوا کی بنیاد رکھی گئی جس کا میں بانی چئیرمین تھا۔پنجابی میں لکھنے پڑھنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔جس کے نتیجے میں نیوز میگزین “جئینس”،کہانیوں کی کتاب “اخیرلا پنجابی “,۔تحقیقی کتاب ’’آو پنجابی کو قتل کریں ‘‘اور بعد میں دو پنجابی ناول “دریا برد” اور “واہگا” چھپے۔
دوستوں اور خاص کر اشفاق نابر سے میں اکثر کہتا تھا
’’اسیں اک غلط تھاں تے بہہ کے صیح کم کر رہے آں‘‘
آج سے تیس سال پہلے پنجاب کی تقسیم کے خلاف تحریک مزاحمت کراچی سندھ سے میں نے سیاسی تنظیم لوک سیوا پاکستان بنا کر شروع کی۔پنجاب میں کسی کو علم نا تھا کہ سرائیکی پناہگیر جو پنجاب میں غیر مقامی اور پنجاب دشمن ہیں پنجاب کو اندر ہی اندر سے کس طرح ڈس رہے ہیں اور کس خوفناک طریقے سے پنجابیوں کی نسلی و لسانی نسل کشی کرتے ہوئے معصوم پنجابیوں کو جھوٹی اور من گھڑت سرائیکی نسل میں بدل کر پنجاب کی دھرتے کے ایک حصے پر قبضہ کرکے اسے سرائیکی وسیب کا نام دے کر اردو اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے پنجاب کی تقسیم کی سازش میں سرگرعمل ہیں اور لہور ان کو ہلا شری دے رہا اور ان کے آگے دم ہلا رہا ہے ۔
اوڑک 2009 وچ لہور شفٹ ہوا۔اور یہاں پنجابی زبان تحریک،پنجابی نیشنل کانفرنس اور پنجاب بچاو تحریک شروع کر دی۔لہور میں میری موجودگی اور پنجابی تحریک کا سڑکوں پر آنا کچھ لوگوں کا ناگوار گذرا۔گھر پر فائرنگ ہوئی۔مجھ پر سیدے فائر کئے گئے ۔قاتلانہ حملے میں جان بچ گئی تو لہور چھوڑ کر واپس کینیڈا منتقل ہو گیا۔اب لہور واپسی کا ارداہ کیا ہے تو قتل کی دھمکیاں بھی پیشگی آنا شروع ہو گئی ہیں۔کینیڈا وچ رہندیاں وی جو کچھ ہویا پنجابی لئی ہی کردا رہیا۔
سندھ سے گذر کر پنجاب میں قدم رکھا اور پنجاب کی سات ہزار سال قدیم تاریخ کو کھنگال ڈالا۔راز کھلاکہ دھرتی ماں پنجاب ،سپت سندھو،پنج ند،ہڑپا ،ٹیکسلا کہاں کہاں سات ہزار سال میں پنجاب پر لہو کی کیسی کیسی برساتیں صدیوں تک برستی گذرتی رہیں ۔چیلیاں والا اور رائے احمد کھرل پنجابیوں کی دلیری اور مزاحمت کی لازوال علامتیں ہیں۔مگر یہ پنجاب برباد ہونا شروع ہوا تب جب پنجابی راج ختم کرکے اس پر انگریز نے اردواور جاگیردار مسلط کئے ۔ایک سو ستر سال کی پنجاب کی بربادی اور پنجاب کے ڈھائی سوسالہ تاریک دور پر گیارہ سو صفحے کا ناول واہگا لکھ مارا ۔تو بھی اب تک پنجاب کے بارے میں جاننے کی پیاس نہیں بجھی ۔پنجاب کا جو ہو جائے پنجاب پھر اس کا ہو جاتا ہے ۔میں نے یہ آزما دیکھا سمجھ لیا ہے ۔
پنجاب اسمبلی جو اچھل اچھل کر پنجاب کی تقسیم ،پنجاب پر اردو مسلط کرنے کی قراردادیں پاس کرتی ہے مگر پنجابی زبان کو پنجاب کی تعلیمی،سرکاری، دفتری ،عدالتی ،پارلیمانی زبان کا قانون پاس کرتے ہوے اسے موت پڑتی ہے اس پنجاب اسمبلی کو ڈھائے بغیر نا پنجاب کی تقسیم رکے گی اور نا کبھی پنجابی زبان پنجاب کو واپس ملے گی۔سانپ کا سرکاٹیں گے تو پنجاب اور پنجابیوں کوزندگی ملے گی ورنہ موت مقدر ہے ۔
موت کی دھمکیاں دینے والے سن لیں میرے ہوتے ہوئے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پنجاب سے پنجابی زبان کا اور میری دھرتی ماں پنجاب کا تقسیم کے ذریعے کوئی جنازہ اٹھانے کی جرائت کرے ۔کہانا کہ۔تمہارا کھیل تماشا جو تم نے پنجاب میں ایک سو ستر سال سے شروع کر رکھا ہے اسے میں نے ختم کر ڈالا ہے اللہ کے حکم سے پنجاب اور پنجابی کی بات اب دور تک نکل گئی ہے ۔کہ میں نے اس میدان میں نصف صدی تپسیا کی ہے اپنی زندگی دی ہے ۔اپنی ایک ایک سانس پنجاب اور پنجابی کے لئے وقف کی ہے ۔پنجابی زبان اورپنجاب ہمیشہ رہیں گے ۔پنجاب کبھی اب تقسیم نا ہوگا۔مگر تم نہیں رہو گے ۔اس کی میں گارنٹی دیتا ہوں۔انشااللہ
پنجاب صدیوں کے اندھیروں میں بھٹک چکا مگر میں نہیں۔میں اپنے اسی پنجاب کو ڈھونڈنے ،بھالنے نکلا ہوں کہ میں بھٹکا ہوا نہیں ہواور سچوں میں ہوں۔اور مجھے اندھیرے میں بھی آگے سب کچھ سجری سویر کی طرح سب کچھ صاف نظر آ رہا ہے ۔پنجاب کاروشنی کی طرف سفر نظر آر ہا ہے۔پنجاب ایک سو ستر سال کے غلامی کے اندھیروں سے نکل رہا ہے ۔جاگ پڑا ہے۔اپنی سالمیت کے لئے لڑنے مرنے پر تیار کھڑا ہے ۔
جو مجھے پنجاب کی تقسیم کے خلاف آواز اٹھانے پر موت کی دھمکیاں دے رہے ہیں وہ سن لیں, “موت منظور پنجاب دی ونڈ منطور نہیں”. میں پورس،دلا بھٹی،رنجیت سنگھ،جنرل شیر سنگھ،جسرتھ کھوکھر،رائے احمد خان کھرل دے قدماں اتے ٹردا آ رہیاں۔کدی تھڑک نہیں سکدا تسیں اپنی خیر مناو،میں جاناں تے پنجاب جانے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پنجابیوں کو کراچی سندھ ،بلوچستان جاکر پنجابی قوم پرستی کا سبق اچھی طرح پڑھنے کو ملتا ہے۔سندھی مہاجر،پشتون اور بلوچ پنجاب اور پنجابیوں کو جسطرح اپنے مفادات کی کی خاطر پنجابیوں کو سندھ اور بلوچستان اور قومی سطح پر پنجاب کو جس طرح سولی پر چڑھا کر رکھتے ہیں اس کے بعد ان سے واسطہ پڑنے والے کسی بھی پنجابی کے لئے اسلام ،پاکستان ،اُمہ ،قومی زبان اور آفاقیت کے کھوکھلے اور استحصالی نعروں کو چھوڑ کر
حقیقت کی دنیا میں واپس آنا اور خواب خرگوش سے بیدار ہونا پڑتا ہے ۔ پنجاب کے ساتھ بارہ کروڑ پنجابیوں کے ساتھ اس سے بڑا کوئی ظلم کوئی نسلی لسانی ثقافتی نسل کشی اور دہشت گردی نہیں ہو سکتی کہ ان کی مادری زبان ان سے چھین لی جائے ۔ان کی مادری زبان بدل کر اردو کردی جائے ۔ پنجاب کو تقسیم در تقسیم کرکے ختم کردیا جائے ۔پنجابی زبان کو قتل کرنے کی غرض سے اس کے لہجوں کو الگ زبانیں قرار دے دیا جائے اور پنجاب کی سرکاری دفتری عدالتی ، پارلیمانی ،میڈیا اورتعلیمی زبان پنجابی کی بجائے اردو کردی جائے ۔اور یہ سب کچھ ریاست کررہی ہے اور پنجاب حکومت ،پنجاب کے حکمران ،پنجاب اسمبلی ،پنجابی بیوروکریسی اور اردو کی لسانی غلامی میں دو سو سال اندھے ہوچکے ایسٹ انڈیا کمپنی کے پالتو جاگیردار، حاکم اور اردو میڈیم پنجابی دانشور کررہے ہیں ۔ یہ حد ہے اور اب اس کا ردعمل پنجاب میں ٹل نہیں سکتا۔ پنجاب میں پنجابی زبان کا قتل ، اردو کے ہاتھوں پنجابی زبان کے آئینی ،قانونی ،جمہوری ،جنمی حق کا غصب ہونا اردو پنجابی لسانی تنازعہ اور سرئیکی فنتہ پنجاب میں کسے بڑے خونی لسانی خونی حادثے کی بنیاد رکھ چکا ہے ۔
نصف صدی پہلے میری پنجاب کہانی سندھ کے شہر بدین سے شروع ہوئی. موئن جودڑو سے ہوتی ہوئی ہڑپا تک پہچنے والی میری اس پنجاب کہانی کا انت پنجاب میں ہوگا۔موت کی دھمکیاں نا دو مجھے .میں گیا تو سب ساتھ لے کر جاونگا۔انشااللہ تمہیں ڈبو کر جاونگا۔پنجاب سے تمہارا نام و نشان تک مٹا کر جاونگا۔سن لو اکیسویں صدی پنجاب اور پنجابیوں کی ہے.
نظیر کہوٹ