اردو پنجابی تنازعہ

پچھلے چند مہینوں کے دوران، چند مضامین پاکستانی اردو روزناموں میں ایک مہم کے ایک حصے کے طور پر شائع ہوئے ہیں، جس کی قیادت فتح محمد ملک، پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین، ایک حکومتی مالی امداد سے چلنے والی تنظیم ہے، جس نے ایک نیا اردو/پنجابی تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ ملک صاحب نے اپنی لامحدود دانشمندی کے ساتھ یہ خیال پیش کیا ہے کہ پاکستان میں پنجابی زبان کو دبانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پنجاب کی مادری زبان اردو نہ کہ پنجابی کو ثابت کیا جائے۔
7 مئی کو روزنامہ ڈان کے ایک باقاعدہ کالم نگار مشیر انور نے ڈان میں ایک مضمون شائع کیا جس میں ملک فتح محمد کے برین چائلڈ کی حمایت کی گئی اور ان کے اپنے دلائل کو آگے بڑھایا، مقتدرہ کے اخبار اردو کے مارچ-اپریل کے شمارے کے حوالے سے۔ اردو زبان کی ترقی میں پنجابی ادیبوں کے کردار کو اجاگر کرنا۔

اردو پنجاب کی مادری زبان ہے۔

تحریر: مشیر انور
کسی بھی متعلقہ حلقے کی طرف سے کوئی مستند جواب نہ آنے کے ساتھ اور شاید ہی کوئی ہے جو اس کا نوٹس لے، اور کچھ لوگوں کی خوشنودی کے لیے جو فساد برپا ہو گیا ہے، جو قومی زبان کی تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اب بہت زیادہ اس بات پر کہ انگریزی طاقت کی زبان ہے، فتح محمد ملک کو یہ سن کر خوشی ہوئی کہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو اردو کو بطور میڈیم ختم کرنے کے لیے ان کے پاکستانی ہم منصب کو بے ہودہ، بے وقت اور غیر بلائے جانے کی تجویز پر جواب دیا۔ اپنے صوبے میں ہدایات دیں اور اسے پنجابی سے بدل دیں جیسا کہ انہوں نے اپنے صوبے میں کیا تھا۔

کیپٹن ارمیندر سنگھ کو اس کا حق دلانے کے لیے، ہم فرض کر سکتے ہیں کہ وہ محض خصوصیت کے ساتھ ویساکھی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے اور انھوں نے اپنے اچھے پڑوسی کے مشورے میں جانے کے لیے کسی گہری سوچ یا ڈیزائن کی اجازت نہیں دی تھی، لیکن اس کی لاعلمی کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ لاہور، جہاں اس نے یہ غلط بیانی کی تھی، ہے، ہے اور رہے گا اردو کا قبلہ اول، اور پنجاب اس کی پہلی ہیچری ہے جہاں ترکوں، پٹھانوں اور فارسیوں نے دہلی جاتے ہوئے پہلے ڈیرے ڈالے تھے۔

مسٹر سنگھ کو شاید یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ٹھیک سو سال پہلے پہلی فروری 1904 کو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر چٹرجی کی طرف سے پیش کی گئی اسی تجویز کو پنجاب کے لوگوں نے بڑے زور شور سے ٹھکرا دیا تھا۔
اس تجویز نے بالخصوص پڑھے لکھے حلقوں اور عام مسلمانوں میں بالعموم احتجاج کا طوفان برپا کر دیا تھا۔ اخبارات کے اداریوں اور مضامین کی ایک بڑی تعداد نے اس تجویز کی بیہودگی کو واضح کیا اور اسے پنجاب کے ثقافتی اور سیاسی تشخص کے خلاف ایک خطرناک سازش قرار دیا۔ چٹر جی کے محرکات پر سوال اٹھائے گئے۔

اس سے پوچھا گیا کہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم کو اس شرارت کے لیے کیوں استعمال کیا گیا؟ احتجاج اس قدر زور پکڑ گیا کہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر لوئس ڈین کو اپنے وائس چانسلر کو بچانے کے لیے آنا پڑا۔ ناقدین نے اسے بھی نہیں بخشا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ انگریزی کو یارکشائر کی بولی سے بدل دیں گے، جیسا کہ تعلیمی ذریعہ؟
مقتدرہ کے اخبار اردو کا مارچ اپریل کا شمارہ اردو کی پیدائش اور ترقی میں پنجاب کے تشکیلاتی کردار کو قائم کرنے کے لیے وقف ہے۔ اس میں اردو کے نامور اسکالرز کی تحقیق اور آراء کا ایک وزنی ذخیرہ پیش کیا گیا ہے جس میں ابتدائی دور سے اردو کی ابتداء اس وقت تک بحث و مباحثہ کا موضوع بنی تھی۔
مولانا محمد حسین آزاد، سر عبدالقادر، منشی محبوب عالم، حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر سید عبداللہ، جمیل جالبی، آفتاب احمد اور انور سعید، عطش درانی، نبی بخش بلوچ، شہرت بخاری، صوفی تبسم، انور تک ناموں کی ایک پوری کہکشاں۔ احمد اور دیگر علماء حمایت میں نظر آتے ہیں۔

اس مسئلے کو ایک بہت ہی جامع مطالعہ بنانے کے لیے مختلف زاویوں سے زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ قومی زبان کے لیے بڑی لگن اور محبت کا کام ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان علماء میں اردو کے حوالے سے کوئی احساس کمتری نہیں تھا حالانکہ ان میں سے اکثر برطانوی دور حکومت میں رہتے اور کام کرتے تھے۔ درحقیقت وہ انگریزی کو ذہنی غلامی اور غلامی کی زبان سمجھتے تھے۔
فتح محمد ملک کے ہندوستانی پنجاب کے مکھ منتری کے جواب کی طرف لوٹنا جس کی بنیاد انہوں نے 26 فروری سے 25 مارچ 1909 تک کے ‘پیسہ اخبار’ لاہور میں شائع ہونے والے صرف ایک ماہ کے مضامین اور اداریوں پر رکھی ہے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ پنجابی اور اردو بنیادی طور پر ایک ہی زبان تھی۔

پنجابی اردو کی پرانی شکل تھی اور اردو اس کی بہتر اور ترقی یافتہ شکل تھی۔ زبان کی ترقی یافتہ اور بہتر شکل کی جگہ پرانے ورژن کو اپنانے کی وکالت کرنا محض حماقت یا مسلمانوں کے خلاف سازش ہو سکتی ہے۔
اصل ارادہ یہ تھا کہ ایک بار جب پنجابی کو ذریعہ تعلیم کے طور پر متعارف کرایا جائے تو اسے علمی شکل دینے کے لیے اس کی بہت زیادہ سنسکرت کی جائے گی اور پھر اس کے قرآنی رسم الخط کو گرومکھی میں تبدیل کردیا جائے گا۔

یہ بالآخر پنجابی کے تمام عربی اور فارسی الفاظ کو ختم کر دے گا اور اس کی اسلامی شناخت سے محروم ہو جائے گا، جسے عظیم صوفی شاعری نے اس سے مزین کیا تھا۔

ایک بار جب ایسا ہوا تو پنجاب کے مسلمان آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر اپنی ثقافت کے چشموں سے تمام رابطہ کھو دیں گے۔ 26 فروری کے طویل اداریے میں لاہور، امرتسر اور یہاں تک کہ ننکانہ صاحب کے اسکولوں میں گورمکھی کی غیر مقبولیت کا حوالہ دیا گیا ہے جہاں طلباء کی ناکافی تعداد کی وجہ سے پنجابی شاخوں کو بند کرنا پڑا۔

اس کی وجہ درسی کتابوں میں سنسکرت کے الفاظ کا تعارف تھا، جسے سکھ بچے سمجھ نہیں سکتے تھے۔ 6 مارچ کے اداریہ پیسہ اخبار میں دلیل دی گئی کہ اردو کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے میں ناگرک رسم الخط کی ناکامی کے بعد گرومکھی اور پنجابی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
اور اسی طرز فکر کو پیش کرتے ہوئے 17 مارچ کے اداریہ میں یہ اعلان کیا گیا کہ اردو پنجابیوں کی مادری زبان ہے اور اس طرح کے تمام فوائد جو مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں وہ اردو فراہم کر رہے ہیں۔
پنجاب میں پیدا ہونے کی وجہ سے اردو پنجاب میں اجنبی نہیں رہ سکتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اسے انتظامی اور عدالتی کارروائیوں کی سرکاری زبان بنا دیا تھا۔

یہ بحث اس وقت کے بیشتر پرنٹ میڈیا بشمول مخزن میں چلی تھی۔ علامہ اقبال نے اس مسئلہ پر موقف اختیار کیا۔ ان کا ترانہ ملی تب تک شائع ہو چکا تھا۔

بالآخر اس بحث کا اختتام حافظ محمد شیرانی کی قدیم کتاب “پنجاب میں اردو” پر ہوا جس نے اس مضبوط اور انقلابی دعوے کو سائنسی بنیاد فراہم کی کہ اردو پنجاب کی مادری زبان ہے، کیونکہ پنجاب نے اسے ماں بنایا تھا۔
کیا چوہدری پرویز الٰہی اپنے بھارتی ہم منصب کی تجویز کے حقیقی مضمرات اور مقاصد کو سمجھ سکتے ہیں؟ اس کا مسترد ہونا ان عوامل میں سے ایک تھا جس کی وجہ سے پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
تو اردو شاید اتنی بے اختیار نہ ہو۔ اس کی مناسب جگہ کو دیکھتے ہوئے اسے مائکرو لیول تک ہم آہنگی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں صاحب اور چپراسی دو مختلف دنیاؤں میں رہتے ہیں۔
TRANSLATED
SOURCE : DAWN.COM
http://www.dawn.com/2004/05/07/fea.htm

پنجاب میں اردو پنجابی لسانی تنازعہ پنجاب ,پنجابی اورپاکستان معاشی ,لسانی طور پر کیوں برباد ہیں

اردوئیزیشن ،انڈیانائیزیشن آف پنجاباردو میڈیم پنجاب اور اردو کی لسانی غلامی میں نسل درنسل برباد ان اردو میڈیم پنجابیوں کے لئے جو پنجابی نہیں پڑھ سکتے نظیر کہوٹ کی خاصتحریر
اس سال یعنی 2022میں یو کے نے 118,000 ,امریکہ نے دو لاکھ کینیڈا نے 2,18,443 انڈین سٹوڈنٹس کو سٹڈی ویزے دیئے .جبکہ اڑدو میڈیم پاکستانیوں اکثریت پنجابیوں کو کتنے ملے صفر تینوں ملکوں میں کل ملا کر سات ہزار ۔وجہ پنجاب کا نظام تعلیم انڈیا کی طرح لازمی مادری اور انگریزی زبانوں میں نہیں۔قومی زبان اردوکی آڑ میں بارہ کروڑ پنجابیوں کا معاشی مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ کردیا گیاہے۔ کیوںکہ پنجابیوں کو ریاست اور پنجاب سرکار یہ نہیں بتا رہی یا پنجابیوں کو یہ حقیقت معلوم ہی نہیں کہ اردو سائینس ,آئی ٹی ,انجنئیرگ بزنس ,کامرس , ٹیکنالوجی , ریسرچ کی زبان ہی نہیں۔مگر اسلام اور قومی زبان کے نام پر اردو احمق پنجابیوں پر مسلط ہے۔جبکہ انگریزی علم ,سائینس ,ٹیکنالوجی , ریسرچ کی عالمی زبان ہے۔جس پر انڈیا کو اردو میڈیم پنجاب اورپاکستان پر برتری حاصل ہے۔یوں پنجاب میں تعلیم مادری زبان مادری زبان اور انگریرزی کی بجاۓ اردو کرکے پنجابیوں کی نسل بدل دی گئی۔ پنجابی نئی نسل کو ریاستی نگرانی میں منظم انداز میں ناکارہ بے روزگار جرائم پیشہ مذہبی جنونی غریب اور جاہل بنا دیا گیا۔پنجابی زبان کاآئینی حق غصب کرکے پنجابی کے لہجوں کو زبانیں بنا کر پنجابی کو قتل کر دیا گیا۔کروڑوں پنجابی نوجوانو ں کو اردو میڈیم بنا کر ان کامعاشی مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کےلئے تباہ کر دیا گیا اور انہیں دنیا بھر کی قوموں اور بھارتیوں کے مقابلے پر لسانی احساس کمتری اور نااہلی کے گٹر میں دھکیل دیا گیا۔یوں پنجاب ,پنجابی زبان , پنجابی خود 175سال سے نسل درنسل لسانی اور معاشی طورپر تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ اور پنجاب کی یہ پونی دو صدیاں قدیم ریاستی نسلی ولسانی نسل کشی کسی بھی طرح رکنے میں نہیں آرہی۔ بات یہیں پرختم نہیں ہوتی پنجاب کی بارہ کروڑ آبادی کے آئینی قانونی لسانی حقوق بھی اس اردو نظام تعلیم کو پنجاب پر مسلط کر کے غصب کیے جا چکے ہیں۔پنجاب اور پنجابیوں کی اردو کے ذریعے نسلی ولسانی نسل کشی کی ریاستی نگرانی میں گذشنتہ ایک سو پچھتر سال سے جاری نفرت انگیز ،شرمناک ، غیرآئینی و غیرقانونی ،غیرانسانی مہم فوری طور پر بند کی گئی تو اس کا انجام عبرتناک ہوگا۔(نظیر کہوٹ)